وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ
اور جب تم نماز کے لیے (لوگوں کو) پکارتے ہو تو وہ اس (پکار) کو مذاق اور کھیل کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ سب (حرکتیں) اس وجہ سے ہیں کہ ان لوگوں کو عقل نہیں ہے۔
1۔ وَ اِذَا نَادَيْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ: ’’نَادَيْتُمْ ‘‘ کا معنی ہے جب تم آواز دیتے ہو، تو اس سے مراد نماز کے لیے اذان ہے یعنی اس کی نقلیں اتارتے ہیں، تمسخر سے اس کے الفاظ بدلتے ہیں اور اس پر آوازے کستے ہیں، شور و ہنگامہ برپا کرتے ہیں۔ (ابن کثیر، فتح القدیر) شیطان کو بھی اذان کی آواز برداشت نہیں، حدیث میں ہے : ’’شیطان جب اذان کی آواز سنتا ہے تو گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے (کہ اذان اس کے کانوں میں نہ پڑے)، پھر واپس آ جاتا ہے، اقامت کے وقت پھر پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے، جب تکبیر ختم ہوتی ہے تو آ جاتا ہے، یہاں تک کہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان پھرتا ہے، کہتا ہے فلاں بات یاد کرو، فلاں بات یاد کرو، جو باتیں اسے یاد نہیں تھیں، یہاں تک کہ آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے۔‘‘ [ بخاری، الأذان، باب فضل التأذین : ۶۰۸ ] 2۔ نماز کے لیے آواز دینے کا ذکر قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے، ایک اس آیت میں دوسرا سورۂ جمعہ میں۔ اسی ندا کو اذان کہتے ہیں، مگر پورے قرآن میں نہ اذان کا طریقہ بیان ہوا، نہ اس کے کلمات اور نہ اس کے اوقات۔ یہ آواز کیسے دی جائے، اس کے لیے حدیث رسول سے رہنمائی لینا ہو گی۔ معلوم ہوا حدیث کے بغیر قرآن پر عمل ممکن ہی نہیں۔ ﴿اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ﴾ [ النساء : ۵۹] اور ﴿اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ ﴾ [ آل عمران : ۳۱ ] کے تحت قرآن کے ساتھ حدیث پر عمل بھی واجب ہے، اسی لیے اہل علم نے منکرین حدیث پر کفر کا فتویٰ صادر فرمایا ہے۔ 3۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ: یعنی اگر ان میں کچھ بھی عقل ہوتی تو اذان کی آواز سن کر ان کے دل نرم پڑ جاتے، وہ حق کی طرف متوجہ ہوتے، یا کم از کم مسلمانوں سے دینی اختلاف رکھنے کے باوجود اس قسم کی گھٹیا حرکتیں نہ کرتے۔