وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اور ہم نے اس (تورات میں) ان کے لیے یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت۔ اور زخموں کا بھی (اسی طرح) بدلی لیا جائے۔ ہاں جو شخص اس (بدلے) کو معاف کردے تو یہ اس کے لیے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ ظالم ہیں۔ (٣٩)
1۔ وَ كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ : اس آیت میں بھی یہود کو ڈانٹ ہے، یعنی انھوں نے جس طرح رجم (سنگ ساری) کے حکم کو تبدیل کر دیا تھا اسی طرح ان پر نفوس ( جانوں) اور جروح ( زخموں) میں برابری رکھی گئی تھی، جو اب بھی تورات کی کتاب خروج، باب (۲۱) فقرہ (۲۳۔ ۲۵) میں موجود ہے، مگر انھوں نے اس کو تبدیل کر کے معطل کر ڈالا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودی قبائل میں سے بنو نضیر طاقتور اور بنو قریظہ کمزور تھے، اس لیے یہودی بنو نضیر کا قصاص تو بنو قریظہ سے لے لیتے لیکن بنو قریظہ کا قصاص بنو نضیر سے نہیں لیتے تھے، بلکہ ان کے مقتول کی دیت ادا کر دیتے۔ (ابن جریر) ’’ھدایۃ المستنیر‘‘ کے مصنف نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اس آیت میں مذکور مسائل کے حجت ہونے پر اجماع ہے، پس عورت کے بدلے قاتل مرد ہی قتل کیا جائے گا، خواہ چھوٹے قبیلے کا ہو یا بڑے کا، قصاص میں سب برابر ہیں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْمُسْلِمُوْنَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ )) ’’مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔‘‘ [ أبو داؤد، الجہاد، باب فی السریۃ ترد علی أھل العسکر :۲۷۵۱۔ أحمد :1؍123۔ نسائی : ۲۷۵۰۔ ح : ۹۹۵ ابن ماجہ : ۲۶۸۳، وقال الألبانی حسن صحیح ] بعض لوگوں نے اس آیت ( جان کے بدلے جان) سے نکالا ہے کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کیا جائے گا، مگر صحیح بخاری (۶۹۱۵) میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ صریح فرمان موجود ہے : (( وَاَنْ لَا يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ)) ’’کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا جائے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ کافر مومن کا کفو (برابر) نہیں ہو سکتا۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے ان بعض لوگوں کے خلاف امت کا اجماع نقل فرمایا ہے جو کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کرنے کے قائل ہیں۔ (ابن کثیر) 2۔ اس وقت مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں نے قرآن و سنت کے صریح خلاف ایسے احکام ایجاد کر لیے جن کی موجودگی میں قصاص تقریباً نا ممکن ہے۔ انھوں نے یہ قاعدہ بنا دیا کہ تیز دھار آلے کے ساتھ قتل کرے یا آگ سے جلائے تو قصاص ہے ورنہ نہیں۔ چنانچہ خواہ جان بوجھ کر قتل کے ارادے سے بھاری سے بھاری پتھر مار مار کر قتل کر دے تو قصاص نہیں ہو گا بلکہ دیت ہو گی، حالانکہ یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، جبکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کا سر پتھروں سے اسی طرح کچلا تھا جس طرح اس نے ایک بچی کا سر کچلا تھا۔ [ بخاری، الدیات، باب سؤال القاتل حتی یقرّ....: ۶۸۷۶ ] لہٰذا قرآن و حدیث کے مطابق قتل کے ارادے سے اگر جان بوجھ کر قتل کرنا ثابت ہو جائے تو پھر قصاص ہے، خواہ کسی طرح بھی قتل کرے۔ مگر ان بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کوئی کسی کو ڈبو کر مار دے، یا بھوکا رکھ کر مار دے، یا برف کے بلاک میں رکھ کر مار دے، غرض بہت سی صورتیں بیان کر کے کہتے ہیں کہ ان میں قصاص نہیں، کیونکہ آلہ تیز دھار نہیں۔ ظاہر ہے جن عدالتوں میں ان لوگوں کا حکم چلتا ہو، وہاں قصا ص کا نشانہ صرف وہی لوگ بنتے ہوں گے جو ان حیلوں کو نہیں جانتے ہوں گے، پھر جب قانون ہی میں انصاف نہ رہے تو کوئی قوم اﷲ کی نصرت کے وعدے کی حق دار کیسے رہ سکتی ہے؟ 3۔ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ: عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص کے جسم پر کوئی زخم لگایا جائے، پھر وہ اسے معاف کر دے تو جتنا اس نے معاف کیا اﷲ تعالیٰ اتنا ہی اس کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا۔‘‘ [ أحمد:5؍316، ح : ۲۲۷۶۷۔ السنن الکبریٰ للنسائی، التفسیر : ۱۱۱۴۶] 4۔ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ ....:یعنی اگر قرآن و حدیث کا انکار تو نہیں کرتا مگر اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے تو یہ ظالم ہے۔