قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةً ۛ يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ
اللہ نے کہا : اچھا تو وہ سرزمین ان پر چالیس سال تک حرام کردی گئی ہے، یہ (اس دوران) زمین میں بھٹکتے پھریں گے (٢١) تو (اے موسی) اب تم بھی ان نافرمان لوگوں پر ترس مت کھانا۔
قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ....: ’’ يَتِيْهُوْنَ ‘‘ ’’تَاهَ يَتِيْهُ تَيْهًا‘‘ بھٹکتے پھرنا۔ ’’اَرْضٌ تِيْهٌ‘‘ وہ زمین جس میں کوئی راستہ نہ ملے۔ (قاموس) اس کے بعد یہ لوگ چالیس سال تک بیابان میں بھٹکتے رہے اور اس کا نام ’’صحرائے تیہ‘‘ پڑ گیا۔ یہیں پہلے ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوا، پھر موسیٰ علیہ السلام بھی وفات پا گئے۔ بعد میں کسی وقت بنی اسرائیل ارض مقدس میں داخل ہوئے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اہل کتاب کو قصہ سنایا، اس پر اگر تم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت نہ کرو گے تو یہ نعمت اوروں کو نصیب ہو گی۔ آگے اس پر قصہ سنایا ہابیل قابیل کا کہ حسد مت کرو، حسد والا مردود ہے۔ (موضح)