قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ
وہ بولے۔ اے موسیٰ ! اس (ملک) میں تو بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں، اور جب تک وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں، ہم ہرگز اس میں داخل نہیں ہوں گے۔ ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو بیشک ہم اس میں داخل ہوجائیں گے۔
1۔ قَالُوْا يٰمُوْسٰۤى اِنَّ فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ....:ایمان کمزور ہونے کی وجہ سے انھوں نے کہا کہ وہاں بڑے زبردست جنگ جو ( جبارین) لوگ رہتے ہیں، جن کے مقابلے کی ہم میں طاقت نہیں۔ جب تک وہ لوگ آپ کے معجزے کی بدولت وہاں سے نہ نکل جائیں، ہم ہر گز وہاں داخل نہیں ہوں گے، اگر وہ خود بخود نکل جائیں تو پھر ہم ضرور داخل ہو جائیں گے۔ 2۔ ”جَبَّارِيْنَ“ سے بڑے ڈیل ڈول والے، بہت اسلحے والے جنگ جو مراد ہیں، مگر جس انداز سے بعض تفسیروں میں ان لوگوں کا نقشہ پیش کیا گیا ہے وہ سب ایسی اسرائیلی روایات ہیں جنھیں ایک معمولی عقل کا انسان بھی تسلیم نہیں کر سکتا، خصوصاً عوج بن عنق کا افسانہ جس کے متعلق حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ سب من گھڑت افسانے ہیں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ ہاتھ تھا، اس کے بعد سے برابر لوگ گھٹ رہے ہیں۔‘‘ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ : ۳۳۲۶۔ مسلم : ۲۸۴۱ ] پھر عوج بن عنق کا قد تین ہزار تین سو تینتیس (۳۳۳۳) ہاتھ کیسے ہو سکتا ہے !؟ (ابن کثیر)