يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارے پیغمبر ایسے وقت دین کی وضاحت کرنے آئے ہیں جب پیغمبروں کی آمد رکی ہوئی تھی، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس نہ کوئی (جنت کی) خوشخبری دینے والا آیا، نہ کوئی (جہنم سے) ڈرانے والا۔ لو اب تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے۔ اور اللہ ہر بات پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔
1۔ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا ....: یعنی ایک مدت سے رسولوں کی آمد کا یہ سلسلہ منقطع ہو چکا تھا، عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں ابن مریم (علیہما السلام ) کا تمام لوگوں سے زیادہ حق دار یا تمام لوگوں سے زیادہ قریب ہوں، انبیاء آپس میں علاتی بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔‘‘ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اﷲ تعالٰی : ﴿واذكر في الكتاب مريم﴾ : ۳۴۴۲ ] بقول سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ان کی بعثت پر بھی ۶۰۰سال گزر چکے تھے۔ [ بخاری، مناقب الأنصار، باب اسلام سلمان الأنصاری : ۳۹۴۸ ] اور کوئی نبی نہیں آیا تھا، پھر آخری نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ اس آیت پر شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی رسول نہیں آیا تھا، سو فرمایا کہ تم افسوس کرتے کہ ہم رسولوں کے وقت میں نہ ہوئے کہ تربیت ان کی پاتے، اب بعد مدت تم کو رسول کی صحبت میسر ہوئی، غنیمت جانو اور اﷲ قادر ہے، اگر تم قبول نہ کرو گے تو اور خلق کھڑی کر دے گا تم سے بہتر، جیسے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم نے جہاد کرنا پسند نہ کیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کو محروم کر دیا، اوروں کے ہاتھ سے ملک شام فتح کروا دیا۔ (موضح) 2۔ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّ نَذِيْرٌ : اس آیت میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا بنیادی مقصد بیان فرمایا ہے، یعنی عرصۂ دراز سے کسی اولو العزم پیغمبر کے نہ آنے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کے احکام میں تغیر و تبدل اور تحریف ہو چکی تھی اور حق و باطل میں امتیاز نہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملت ابراہیم کو تغیر و تبدل اور تحریف سے پاک کر کے لوگوں کو حق سے روشناس کرایا تاکہ ان پر حجت پوری ہو جائے اور عذر کی گنجائش نہ رہے۔ (قرطبی)