سورة المآئدہ - آیت 11

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے ایمان والو ! اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا اس کو یاد کرو۔ جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں، تو اللہ نے تمہیں نقصان پہنچانے سے ان کے ہاتھ روک دییے (١٢) اور (اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ) اللہ کا رعب دل میں رکھتے ہوئے عمل کرو، اور مومنوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ: عمومی انعامات کے بعد اب خصوصی انعام کا ذکر ہے۔ (رازی) اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْۤا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ ....:جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نجد کی طرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں ساتھ تھے، جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹے تو وہ بھی واپس لوٹے۔ دوپہر کے آرام کا وقت ایسی وادی میں آیا جہاں بہت سے خاردار درخت تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اتر پڑے اور لوگ درختوں کے سائے کے لیے درختوں (کی تلاش) میں بکھر گئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کیکر کے درخت کے نیچے اترے اور اپنی تلوار اس کے ساتھ لٹکا دی۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم تھوڑی دیر ہی سوئے تھے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا، ہم آپ کے پاس آئے تو آپ کے پاس ایک بدوی بیٹھا ہوا تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس نے میری تلوار سونت لی، جب کہ میں سویا ہوا تھا، میں جاگ پڑا تو اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی، مجھ سے کہنے لگا، تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا، اﷲ ! تو دیکھو یہ بیٹھا ہے۔‘‘ پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ نہیں کہا۔ [ بخاری، المغازی، باب غزوۃ ذات الرقاع : ۴۱۳۵] ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دیت کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے ایک یہودی قبیلے بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے، انھوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ایک دیوار کے سائے میں بٹھایا اور آپس میں پروگرام بنایا کہ ان کے اوپر چکی کا پاٹ گرا دیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو خبردار کر دیا اور آپ وہاں سے اٹھ گئے۔ (ابن کثیر) ممکن ہے قرآن نے اس ایک آیت میں ان متعدد واقعات کی طرف اشارہ فرمایا ہو اور یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک آیت ایک واقعہ کے متعلق نازل ہوتی ہے، پھر یاددہانی کے لیے دوسرے واقعہ میں اس کی طرف اشارہ کر دیا جاتا ہے۔ ( المنار، قرطبی)