رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
یہ تمام رسول (خدا پرستی اور نیک عملی کے نتائج کی) خوش خبری دینے والے اور (انکار حق کے نتائج سے) متنبہ کرنے والے تھے (اور اس لیے بھیجے گئے تھے) کہ ان کے آنے (اور نیک و بد بتلانے) کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ خدا کے حضور پیش کرسکیں (یعنی یہ عذر کرسکیں کہ ہمیں راہ حق کسی نے نہیں دکھلائی تھی) اور خدا (اپنے کاموں میں) سب پر غالب اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے
رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَ مُنْذِرِيْنَ....: یعنی انبیاء کی بعثت کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور اپنی اصلاح کر لیں انھیں جنت کی خوش خبری دیں اور جو کفر اور نادانی پرجمے رہیں انھیں ان کے غلط رویے کے انجامِ بد سے ڈرائیں، تاکہ اس طرح ان پر اتمامِ حجت ہو جائے اور وہ اﷲ کے ہاں کوئی عذر پیش نہ کر سکیں کہ ہمارے پاس تو تیری طرف سے کوئی خوش خبری دینے والا یا ڈرانے والا آیا ہی نہیں اور یہ مقصد کتاب وشریعت کے نازل کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے (اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حجت بس یہ دونوں چیزیں ہیں، اﷲ تعالیٰ نے کسی امام یا مجتہد کو دین میں حجت نہیں بنایا) عام اس سے کہ وہ کتاب یک بارگی دے دی جائے یا تدریجاً نازل ہو۔ بعثت کے اس اصلی مقصد پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ کتاب کے حسب ضرورت تدریجاً نازل کرنے سے تو یہ مقصد زیادہ کامل طریقے سے پورا ہوتا ہے، پھر ان کا یہ کہنا کہ موسیٰ علیہ السلام کی طرح یک بارگی کتاب لائیں گے تو مانیں گے ورنہ نہیں، یہ محض ضد اور عناد ہے۔ (کبیر)