فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيرًا
الغرض یہودیوں کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے (کئی ایک) اچھی چیزیں ان پر حرام کردیں جو (پہلے) حلال تھیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بتہ روکنے لگے تھے (اور ہدایت کی راہ میں سرتا سر روک ہوگئے تھے
1۔ فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا: ”فَبِظُلْمٍ“ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے اور جار مجرور پہلے آنے کی وجہ سے تخصیص پیدا ہو گئی، اس لیے ترجمہ ’’ان کے بڑے ظلم ہی کی وجہ سے‘‘ کیا گیا ہے۔ 2۔ یہود کی سرکشی اور شرارتیں ذکر کرنے کے بعد اب ان پر سختی کا ذکر ہے۔ (کبیر) 3۔ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ ....: پاکیزہ چیزوں کی یہ حرمت کچھ تو ان کی سرکشی کی بنا پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تھی، کیونکہ وہ گناہ پر بہت دلیر تھے، تاکہ ان کی سرکشی کچھ ٹوٹے، یہ شرعی حرمت تھی، جیسا کہ سورۂ انعام (۱۴۶) میں ہے اور کچھ چیزیں انھوں نے اپنے احبار و رہبان کو حلال و حرام کا اختیار دے کر ان کے حرام قرار دینے کی وجہ سے حرام کر لیں، گویا یہ اﷲ کی تقدیر میں ان کے بڑے ظلم شرک ( احبار و رہبان کو رب بنانے) کی سزا کے طور پر حرام ہوئیں، جیسا کہ اب مسلمانوں میں سے بھی بعض نے اپنے اماموں کے کہنے پر کئی حلال چیزیں حرام اور کئی حرام چیزیں حلال قرار دے رکھی ہیں۔ 4۔ شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ نے ایک اور نفیس مطلب بیان کیا ہے کہ یہاں ”طَيِّبٰتٍ“ سے مراد ان انعامات کا موقوف کر دینا ہے جو بادشاہی اور نبوت و نصرت کی شکل میں حاصل تھے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ ﴾ [البقرۃ : ۶۱ ] ’’اور ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کر دی گئی۔‘‘(فتح الرحمان) حقیقت میں تینوں معنی مراد ہو سکتے ہیں۔