سورة البقرة - آیت 57

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (پھر جب ایسا ہوا تھا کہ صحراسینا کی بے آب و گیاہ سرزمین میں دھوپ کی شدت اور غزا کے نہ ملنے سے تم ہلاک ہوجانے والے تھے تو) ہم نے تمہارے سروں پر ابر کا سایہ پھیلادیا اور من اور سلوی کی غذا فراہم کردی (تم سے کہا گیا :) خدا نے تمہاری غذا کے لیے جو اچھی چیزیں مہیا کردی ہیں انہیں بفراغت کھاؤ اور کسی طرح کی تنگی محسوس نہ کرو (لیکن اس پر بھی تم اپنی بدعملیوں سے باز نہ آئے۔ غور کرو) تم نے (اپنی ناشکریوں سے) ہمارا کیا بگاڑا؟ خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

صحرائے سینا میں ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ تھا اور صحرا کی دھوپ انھیں جلائے دیتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص قسم کے بادل کا سایہ کر دیا اور کھانے کے لیے من و سلویٰ کا انتظام فرما دیا۔ ”الْمَنَّ“ کی تفسیر میں سب سے صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((اَلْكَمَأَةُ مِنَ الْمَنِّ وَمَائُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ ))[بخاری، الطب، باب المن شفاء للعین : ۵۷۰۸۔ مسلم : ۲۰4۹، عن سعید بن زید رضی اللہ عنہ ] ’’کبھی ”مَنّ“ میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ”مَنّ“ متعدد چیزیں تھیں جو صحرا میں خود بخود پیدا ہوتی تھیں ، ان میں سے ایک کھمبی بھی تھی۔ اسی طرح وہ میٹھی گوند بھی ”مَنّ“ کی ایک قسم تھی جو ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ سے ”مَنّ“ کی تفسیر میں آئی ہے۔ ”السَّلْوٰى“ اسم جنس ہے، اس کا واحد ”سَلْواةٌ“ آتا ہے، بٹیر یا بٹیر سے ملتا جلتا پرندہ ہے۔ صحرا میں اللہ کے حکم سے بے شمار پرندے آ جاتے اور وہ انھیں پکڑ کر کھا لیتے تھے۔