إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے برگشتہ ہیں اور چاہتے ہیں، اللہ میں اور اس کے رسولوں میں (تصدیق کے لحاظ سے) تفرقہ کریں اور کہتے ہیں ہم ان میں سے بعض کو مانتے ہیں، بعض کو نہیں مانتے اور اس طرح چاہتے ہیں ایمان اور کفر کے درمیان کوئی (تیسری) راہ اختیار کرلیں۔
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ : منافقین کے قبیح اعمال و اقوال بیان کرنے کے بعد اب یہاں سے اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ) کے خیالات و شبہات اور ان کی تردید کا بیان شروع ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ سورت کے آخر تک چلا گیا ہے۔ (رازی) اﷲ تعالیٰ کو ماننا اور رسالت و نبوت کو نہ ماننا کفر ہے۔ (قرطبی) اس لیے کہ اﷲ کا ماننا یہی ہے کہ زمانے کے پیغمبرکا حکم مانے، اس کے بغیر اﷲ کا ماننا غلط ہے۔ (موضح) نیز اﷲ کے احکام ماننے سے انکار اس کا بندہ ہونے سے انکار ہے اور بندگی (عبادت) سے انکار کا مطلب کائنات کو بنانے والے کا انکار ہے۔ 2۔ وَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ...: مراد اہل کتاب ہی ہیں اور بعد والے جملے انھی کی خصلتوں کی تفسیر ہیں۔ (قرطبی، رازی) یہود موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے لیکن عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے تھے اور نصاریٰ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو مانتے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے۔ (ابن کثیر) 3۔ وَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا : یعنی سب کو ماننا ایمان ہے، کسی ایک کا انکار کفر ہے، جب کہ یہ لوگ بعض پر ایمان لا کر اور بعض سے انکار کر کے ایک تیسری راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں اور اس کا نام یہودیت یا نصرانیت رکھتے ہیں، جیسا کہ ہمارے زمانے کے مادہ پرستوں نے مسجدوں میں نماز، بازاروں میں سود، غم و شادی اور عام رہن سہن میں غیر مسلموں کی نقالی اور عدالتوں اور حکومت کے شعبوں میں کفریہ قوانین، سب کچھ کو ملا کر اس کا نام اسلام رکھ دیا ہے اور بعض نے کہا کہ قرآن کو تو مانیں گے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو نہیں مانیں گے۔ یہ منکرینِ حدیث بھی انھی لوگوں میں شامل ہیں۔