يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
مسلمان ! اللہ پر ایمان لاؤ، اللہ کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے۔ نیز کتابوں پر جو اس سے پہلے (دوسرے پیغمبروں پر) نازل کی تھیں۔ اور (دیکھو) جس کسی نے اللہ سے انکار کیا، اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان نہ رکھا، تو وہ بھٹک کر سیدھے راستے سے بہت دور جا پڑا
1۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ....: یہاں ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دیا جا رہا ہے، یعنی ایمان پر ثابت قدم رہو، یا اپنے ایمان میں اخلاص پیدا کرو، اس کے مخاطب تمام مومنین ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس کے مخاطب اہل کتاب کے مومن ہیں، لیکن پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ (فتح القدیر) قرطبی لکھتے ہیں، بعض کا خیال ہے کہ یہ خطاب منافقین سے ہے، ان کے بظاہر مسلمان ہونے کی وجہ سے ایمان والے فرما دیا اور معنی یہ ہے کہ جب تک دل میں کامل یقین پیدا نہیں کرو گے اور خالص اللہ کو نہیں مانو گے تو اللہ کے ہاں مسلمان نہیں ہو سکتے۔ 2۔ پہلی کتابوں پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ بھی قرآن کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں۔ باقی رہا عمل! تو وہ ان پر نہیں بلکہ قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کیا جائے گا۔ ان کتابوں میں جو چیز کتاب و سنت کے مطابق ہو گی اس کی تصدیق کی جائے گی اور جو ان کے خلاف ہو گی اسے رد کر دیا جائے گا۔ 3۔ وَ مَنْ يَّكْفُرْ بِاللّٰهِ ....: یعنی اگر ان میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کیا تو گویا تمام چیزوں کا انکار کر دیا۔