وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور تم اپنی طرف سے کتنے ہی خواہش مند ہو، لیکن یہ بات تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ (ایک سے زیادہ) عورتوں میں (کامل طور پر) عدل کرسکو (کیونکہ دل کا قدرتی کھنچاؤ تمہارے بس کا نہیں۔ کسی طرف زیادہ کھنچے گا کسی طرف کم) پس ایسا نہ کرو کہ کسی ایک ہی کی طرف جھک پڑو، اور دوسری کو (اس طرح) چھور بیٹھو گویا "معلقہ" ہے (یعنی ایسی عورت ہے کہ نہ تو بیوہ اور طلاق دی ہوئی ہے کہ اپنا دوسرا انتظام کرے۔ نہ شوہر ہی اس کا حق ادا کرتا ہے کہ شوہر والی عورت کی طرح ہو۔ بیچ میں پڑی لٹک رہی ہے) اور (دیکھو) اگر تم (عورتوں کے معاملہ میں) درستی پر رہو، اور (بے انصافی سے) بچو، تو اللہ بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے۔
1۔ وَ لَنْ تَسْتَطِيْعُوْۤا۠ اَنْ تَعْدِلُوْا ....: یعنی دو یا دو سے زیادہ بیویوں کے درمیان ہر لحاظ سے پوری پوری مساوات برتنا انسانی طاقت سے باہر ہے، کیونکہ عورتوں میں اپنی طبیعتوں، اخلاق و عادات، حسن صورت اور عمر وغیرہ میں ایک دوسری سے فرق ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر مرد کا میلان ایک کی طرف زیادہ اور دوسری کی طرف کم ہو تو یہ ایک فطری امر ہے، جس پر وہ چاہے بھی تو قابو نہیں پا سکتا۔ لہٰذا قرآن نے اس بات پر زور دیا کہ ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں ایک کی طرف اس طرح جھک جانا کہ دوسری معلق (لٹکی ہوئی) ہو کر رہ جائے، گویا اس کا کوئی شوہر ہی نہیں اور نہ وہ غیر شادی شدہ ہے کہ کہیں اور نکاح کر لے، تو یہ حرام ہے، ظاہری حقوق میں عورتوں سے مساوی سلوک کیا جائے، دل کے میلان پر گرفت نہیں ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : ’’ یا اللہ ! یہ میری بیویوں کے درمیان اس چیز کی تقسیم ہے جس کا میں اختیار رکھتا ہوں ( یعنی کھانا پینا، کپڑا، سونا بیٹھنا وغیرہ) لہٰذا تو مجھے اس چیز پر ملامت نہ فرما جس کا میں اختیار نہیں رکھتا( یعنی دلی میلان اور محبت)۔‘‘ [ أبو داؤد، النکاح، باب فی القسم بین النساء : ۲۱۳۴۔ ترمذی : ۱۱۴۰ ] 2۔ بعض لوگوں نے اس آیت اور اس سورت کی آیت (۳) دونوں کو ملا کر نتیجہ نکالا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان عدل ممکن ہی نہیں۔ دوسرا حکم ہے کہ اگر عدل نہ کر سکنے کا خوف ہو تو بس ایک بیوی یا لونڈی رکھو۔ معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ نکاح جائز نہیں۔ اس کے جواب کے لیے سورۂ نساء کی آیت (۳) کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔ بلکہ زیر تفسیر آیت میں تو عورتوں کے درمیان عدل میں اتنی رعایت دی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے منع نہ کیا ہوتا تو آدمی چار سے زیادہ بیویاں بھی رکھ سکتا تھا، بشرطیکہ کوئی عورت ایسی لٹکی ہوئی نہ ہوتی کہ خاوند اس کے پاس چکر ہی نہ لگاتا، نہ اس کے کھانے پینے کی فکر کرتا۔ اگر آدمی اصلاح کرے اور ڈرے تو جو کمی بیشی ہے وہ اللہ معاف کر دے گا۔