وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے سرکشی یا کنارہ کشی کا اندیشہ ہو تو شوہر اور بیوی پر کچھ گناہ نہ ہوگا، اگر (مصالحت کی کوئی بات آپس میں ٹھہرا کر) صلح کرلیں۔ (نا اتفاق سے) صلح (ہر حال میں) بہتر ہے۔ اور (یاد رکھو انسان کی طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے کہ) مال کا لالچ سبھی میں ہوتا ہے (عورت چاہتی ہے اسے زیادہ سے زیادہ ملے۔ مرد چاہتا ہے کم سے کم خرچ کرے۔ پس ایسا نہ کرو کہ مال کی وجہ سے آپس میں مصالحت نہ ہو) اور اگر تم (ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور (سخت گیری سے بچو تو تم جو کچھ کرتے ہو خدا اس کی خبر رکھنے والا ہے
1۔ وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ ....: ”نُشُوْزًا“ کا مطلب ہے زیادتی، لڑائی جھگڑا، اعراض، بے رخی۔ نشوز یا اعراض یہ ہے کہ اس سے بدسلوکی کرے، اس کو حقیر سمجھے، اس کے پاس سونا بیٹھنا چھوڑ دے، اسے نان و نفقہ نہ دے، مارنے کے لیے بہانے تراشے، یا اس کے پاس اور بیوی ہے جسے وہ زیادہ چاہتا ہے، اس لیے اس کی طرف توجہ کم ہے، تو اس صورت میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں، ایک تو یہ کہ عورت سمجھے کہ میں اسی شخص کے نکاح میں رہوں تو میرے حق میں بہتر ہے، خواہ مجھے اپنے کچھ حقوق چھوڑنے پڑیں۔ دوسری یہ کہ وہ اس سے علیحدہ ہو جائے، آیت (۱۲۸) میں پہلی صورت کا ذکر ہے اور آیت (۱۳۰) میں دوسری صورت کا ذکر ہے۔ 2۔ اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا: ”صُلْحًا“ کی تنکیر ( کسی طرح کی صلح) سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی آپس میں کسی طریقے سے بھی صلح کر لیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ’’کسی مرد کے پاس کوئی عورت ہوتی اور اب وہ اسے مزید نہ رکھنا چاہتا اور طلاق دینے کا ارادہ کرتا تو وہ عورت کہہ دیتی کہ ( مجھے طلاق نہ دے، اپنے نکاح میں رہنے دے) میں اپنی باری کے بارے میں تمھیں اجازت دیتی ہوں (کہ تو جس بیوی کے پاس چاہے رہے) چنانچہ یہ آیت اس سلسلے میں نازل ہوئی۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب : ﴿و إن امرأۃ خافت… ﴾ : ۴۶۰۱ ] عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سودہ رضی اللہ عنہا کو اندیشہ لاحق ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں طلاق دے دیں گے تو انھوں نے عرض کیا : ’’اے اللہ کے رسول ! میری باری کا دن عائشہ کو دے دیں مگر مجھے طلاق نہ دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا، اس پر یہ آیت اتری : ﴿ وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا ﴾ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’وہ دونوں جس چیز پر صلح کر لیں وہ جائز ہے۔‘‘ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ النساء : ۳۰۴۰ ] عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا عمر رسیدہ ہو گئیں تو انھوں نے اپنا دن عائشہ کو ہبہ کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا دن بھی عائشہ کے پاس گزارتے تھے۔ [ بخاری، النکاح، باب المرأۃ تہب یومہا من زوجھا....: ۵۲۱۲ ] 3۔ وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ: یعنی صلح ہر حال میں بہتر ہے، کیونکہ شیطان اپنے کارندوں میں سے اس کارندے کو اپنے قریب کر کے شاباش دیتا ہے جو میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کروا دے۔ [ مسلم، صفات المنافقین و أحکامھم، باب تحریش الشیطان ....: 67؍2813] 4۔ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ: ”الشُّحَّ“ کا معنی ہے بخل، جس کے ساتھ حرص بھی ہو، یعنی انسان کا بخل اور لالچ تو فطری امر ہے، مرد کا شح یہ ہے کہ عورت سے فائدہ اٹھائے مگر اس کے پورے حقوق ادا نہ کرے اور عورت کا شح یہ ہے کہ مہر اور نان و نفقہ تو پورا وصول کرے مگر حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرے۔ 5۔ وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا ....: یعنی اس لالچ کے جذبے کے باوجود اگر میاں بیوی ایک دوسرے سے احسان اور فیاضی کا سلوک کریں اور اللہ سے ڈرتے رہیں تو اللہ کے ہاں اس کا اجر ضرور پائیں گے، جو ان کے ہر عمل سے پورا با خبر ہے۔