وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطًا
اور (یاد رکھو) جو کچھ آسمانوں میں ہے۔ اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ (اس کے سوا کوئی نہیں) اور وہ (اپنے علم و قدرت سے) ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے
یعنی اللہ تعالیٰ کے ابراہیم علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست بنانے کا مطلب یہ نہیں کہ جس طرح دوست برابر ہوتے ہیں، ان کی ملکیت بھی ایک ہی سمجھی جاتی ہے، اسی طرح ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل تھے، نہیں بلکہ آسمان و زمین کی ملکیت اب بھی اللہ ہی کے پاس ہے اور ہر شے کا احاطہ بھی اسی کے پاس ہے، یہ تو اس کا فضل و کرم ہے کہ اپنے ان خاص بندوں کو اپنا خلیل قرار دے کر ان کی عزت افزائی فرمائی۔ دلیل چاہو تو ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا معاملہ دیکھ لو۔