لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
(مسلمانو ! نجات و سعادت) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر (موقوف) ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ (وہ تو ایمان و عمل پر موقوف ہے) جو کوئی برائی کرے گا (خواہ کوئی ہو) ضروری ہے کہ اس کا بدلہ پائے، اور پھر اللہ کے سوا نہ تو اسے کوئی دوست ملے نہ مددگار
1۔ لَيْسَ بِاَمَانِيِّكُمْ ....: اہل کتاب کا خیال تھا کہ ہم خاص بندے ہیں، جن گناہوں پر لوگ پکڑے جائیں گے ہم نہیں پکڑے جائیں گے، ہمارے پیغمبر ہماری حمایت کریں گے، ہم صرف چند دن جہنم میں رہیں گے۔ ( دیکھیے بقرہ : ۸۰) جنت میں صرف ہم جائیں گے۔ (دیکھیے بقرہ : ۱۱۱) آج کل کچھ نادان مسلمان بھی اپنے حق میں یہ خیال رکھتے ہیں، سو اللہ نے فرمایا کہ برا کام جو کرے گا، کوئی ہو، سزا پائے گا، کسی کی حمایت کام نہیں آئے گی۔ اللہ کا پکڑا وہی چھوڑے تو چھوٹے۔ دنیا کی مصیبت پر آدمی قیاس کر لے۔ 2۔ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْٓءًا يُّجْزَ بِهٖ.... : خوش فہمیاں اور خام خیالیاں سزا کو دفع نہیں کر سکتیں، سزا ضرور ملے گی، خواہ دنیا میں ملے یا آخرت میں، یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کی وجہ سے، یا کسی نیک عمل کی وجہ سے، یا دنیا میں آنے والی مصیبتوں کی وجہ سے معاف فرما دے۔ خلاصہ یہ کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہاں اسے کوئی اپنے زور سے چھڑوا لے گا : ﴿ وَ لَا يَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّ لَا نَصِيْرًا ﴾ ’’اور وہ اللہ کے سوا اپنے لیے نہ کوئی دوست پائے گا اور نہ کوئی مدد گار‘‘ ہاں، اللہ تعالیٰ خود ہی دنیا کی تکلیفوں کو اس کے لیے کفارہ بنا دے، یا اس کے توحید و سنت پر گامزن ہونے کی وجہ سے اس سے درگزر کر دے تو وہ مالک و مختار ہے۔