وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
اور جس شخص پر الہدی (یعنی ہدایت کی حقیقی راہ) کھل جائے اور اس پر بھی وہ اللہ کے رسول سے مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ چلنے لگے تو ہم اسے اسی طرف کو لے جائیں گے جس (طرف) کو (جانا) اس نے پسند کرلیا ہے اور اسے دوزخ میں پہنچا دیں گے۔ اور (جس کے پہنچنے کی جگہ دوزخ ہوئی تو) یہ پہنچنے کی کیا ہی بری جگہ ہے
1۔ وَ مَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ.... : ”يُشَاقِقِ“ ’’شق‘‘ سے باب مفاعلہ کا فعل مضارع معلوم ہے۔ ’’ شق‘‘ کا معنی طرف، کنارہ ہے، یعنی جو شخص یا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح مخالفت کرے کہ آپ کے مقابلے میں آجائے، ایک طرف اللہ کے رسول ہوں دوسری طرف یہ شخص یا گروہ ہو اور حق معلوم ہو جانے کے باوجود مومنوں کے سیدھے اور صاف راستے سے ( جو ہر حال میں اتباع رسول ہے) ہٹ جائے، تو ہم بھی اسے اسی طرف پھیر دیں گے جدھر وہ پھرے گا اور اسی ٹیڑھی راہ پر جانے دیں گے جو اسے لے جا کر جہنم میں ڈال دے گی اور وہ بہت برا راستہ ہے۔ 2۔ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی کرنا در حقیقت دین اسلام ہی سے نکل جانا ہے، جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی گئی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں جو دین اسلام کے سب سے پہلے پیرو کار اور اس کی تعلیم کا مکمل نمونہ تھے اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی اور گروہ مومنین کا موجود نہ تھا، جو یہاں مراد ہو سکے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کی پیروی دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے راستے سے ہٹنا بھی کفر اور گمراہی ہے۔ بعض علماء نے ’’سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ“ سے مراد اجماع امت لیا ہے، یعنی پوری امت کے اجماع سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء و فقہاء کا اتفاق، یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اتفاق ہو، یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے، یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے لیکن اجماع صحابہ کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت مسائل میں کیے گئے ہیں، لیکن ایسے اجماعی مسائل بہت کم ہیں جن میں فی الواقع امت کے تمام علماء و فقہاء میں اتفاق ہو، پھر ایسے مسائل پر سب علماء و فقہاء کے اتفاق کا پتا چلانا اور بھی مشکل ہے۔ پھر امت میں بہت سے فرقوں کے بن جانے نے یہ نتیجہ دکھایا ہے کہ ہر گروہ اپنی بات کو مضبوط بنانے کے لیے اجماع کا دعویٰ کر دیتا ہے، خواہ وہ صریحاً قرآن و حدیث کے خلاف ہو، مثلاً قبروں پر عمارت بنانا، ان پر غلاف چڑھانا، چراغ جلانا، غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا، تعزیہ نکالنا، انبیاء کو انسان نہ سمجھنا، انھیں خدائی اوصاف دینا، میلاد، گیارھویں، تیجہ، ساتواں، دسواں، چالیسواں، عرس، میلے، پیر کا تصور باندھنا، اس کی ہر صحیح و غلط بات ماننا، الغرض! صریح شرک و بدعت کے کاموں کو اجماع کا نام دے دیا گیا ہے۔ البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسے مسائل جن پر فی الواقع پوری امت کے علماء و فقہاء کا اجماع ہو ان کا انکار بھی صحابہ کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘ [ ترمذی، الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ : ۲۱۶۷، و صححہ الألبانی] 3۔ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًا: اس آیت میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور سلف صالحین کے مسلک سے منہ موڑ کر دوسروں کی پیروی کرتے ہیں اور آئے دن نئی بدعات ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تقلید کی ایجاد بھی بعد کی صدیوں میں ہوئی، سلف صالحین کے دور میں اس کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ کتاب و سنت کی دلیل سے اس کی کوئی گنجائش نکلتی ہے۔