لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
ان لوگوں کے پوشیدہ مشوروں میں سے اکثر مشورے بھلائی کے لیے نہیں ہوتے۔ ہاں جو کوئی خیرات کے لیے یا کسی نیک کام کے لیے حکم دے، یا لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرادینا چاہے (اور اس میں پوشیدگی ملحوظ رکھے تو البتہ یہ نیکی کی بات ہے) اور جو کوئی خدا کی خوشنودی کی طلب میں اس طرح کے کام کرتا ہے، تو ہم اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائیں گے
1۔ لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ.... : ”نَجْوَی“ کچھ لوگوں سے علیحدہ ہو کر صلاح مشورہ کو کہتے ہیں، یہ مصدر ہے اور مبالغہ کے طور پر ’’عَدْلٌ ‘‘ اور ’’رِضًي‘‘ کی طرح جمع پر بھی بولا جاتا ہے اور ’’اِلَّا ‘‘ کے بعد ’’نَجْوَي‘‘ محذوف ہے، یعنی ”إِلاَّ نَجْوَي مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ“ یعنی ان کی بہت سی سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں، سوائے اس شخص کی سر گوشی کے جو صدقے کا حکم دے۔ ”بِصَدَقَةٍ“ صدقہ اس مال کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے کے لیے خرچ کیا جائے۔ یہ اصل میں نفل پر بولا جاتا ہے لیکن بعض اوقات فرض پر بھی بول دیتے ہیں، جیسے : ﴿ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ ﴾ [ التوبۃ : ۶۰ ] مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ عمل دل کے صدق سے ادا ہو رہا ہے۔ (راغب) ”مَعْرُوْفٍ“ یہ لفظ نیکی کے تمام کاموں کو شامل ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمھارا اپنے بھائی کو کھلے چہرے سے ملنا بھی معروف میں سے ہے۔‘‘ [ ترمذی، البر والصلۃ، باب ما جاء فی طلاقۃ الوجہ ....: ۱۹۷۰، عن جابر رضی اللہ عنہ و صححہ الألبانی ] ”اِصْلَاحٍۭ بَيْنَ النَّاسِ“ کے الفاظ مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے اختلافات ختم کرنے کو شامل ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ﴾ [ الأنفال : ۱ ] ’’سو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو۔‘‘ ام کلثوم رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : ’’وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرتا ہے اور ( اس مقصد کے لیے) کوئی اچھی بات دوسرے تک پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔‘‘ [ بخاری، الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس : ۲۶۹۲ ] 2۔ منافق لوگ جو راتوں کو الگ بیٹھ کر مشورہ کرتے ہیں، وہ اکثر اوقات بری باتیں ہی سوچتے ہیں، جو خیر سے خالی ہوتی ہیں، کیونکہ بھلائی کی بات اور صاف ستھری بات کو چھپانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ البتہ کچھ کام چھپا کر کرنا بہتر ہوتے ہیں، مثلاً کسی کو صدقہ دے تو چھپا کر دے، تاکہ لینے والا شرمندہ نہ ہو، یا صدقہ دینے سے متعلق الگ مشورہ بھی اچھا کام ہے۔ اسی طرح بھلائی کے کاموں اور بالخصوص لوگوں کے درمیان صلح کرانے سے متعلق اگر خفیہ مشورہ بھی کیا جائے تو یہ بھی ایک نیکی کا عمل ہے، لیکن افسوس ہے کہ یہ لوگ ان امور میں سے تو کسی بات کا مشورہ نہیں کرتے، بلکہ ایسے مشورے کرتے ہیں جن سے شر پیدا ہو اور دوسروں کو نقصان پہنچے اور جو شخص مذکورہ بالا امور سے متعلق محض اللہ کی رضا کے لیے مشورہ کرے تو یہ بڑی نیکی کے کام ہیں۔