وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
اور ان خندق والوں کی دشمنی مسلمانوں سے محض اس بنا پر تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جوزبردست اور ستودہ صفات ہے
1۔ وَ مَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ....:ان اہلِ ایمان نے ان ظالموں پر یا کسی دوسرے پر کوئی زیادتی نہیں کی تھی جس کا وہ بدلا لے رہے ہوں، ان کا جرم صرف اللہ پر ایمان لا کر اس پر قائم رہنا تھا۔ آیت میں ’’ اِلَّا اَنْ يُّؤْمِنُوْا ‘‘ فرمایا ہے جو حال و استقبال پر دلالت کرتا ہے، ’’إِلَّا أَنْ آمَنُوْا‘‘ نہیں فرمایا جوماضی کا صیغہ ہے، یعنی ان کا جرم یہی نہ تھا کہ وہ ایمان لے آئے تھے، بلکہ یہ تھا کہ وہ اب بھی ایمان پر قائم تھے۔ 2۔ بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ: یعنی ان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا کوئی جرم یا غلط کام نہ تھا، بلکہ وہ اس اللہ پر ایمان رکھتے تھے جو عزیز و حمید ہے اور آئندہ آیت میں مذکور صفات کا مالک ہے اور ان صفات کی وجہ سے اس کا حق ہے کہ اس پر ایمان رکھا جائے۔ یہ قرآن مجید کاخاص اسلوب ہے کہ واقعات بیان کرتے ہوئے بھی وہ عقائد کی درستی اور احکام کی وضاحت کا اہتمام جاری رکھتا ہے، اس کی ایک مثال یہ آیت ہے۔