فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
پھر جب تم نماز (خوف) پوری کرچکو، تو چاہیے کہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو (کہ اس کی یاد صرف نماز کی حالت ہی پر موقوف نہیں۔ ہر حالت میں تمہارے اندر بسی ہونی چاہیے) پھر جب ایسا ہو کہ تم (دشمن کی طرف سے) مطمئن ہوجاؤ۔ تو (معمول کے مطابق) نماز قائم رکھو۔ بلاشبہ نماز مسلمانوں پر وقت کی قید کے ساتھ فرض کردی گئی ہے
1۔ فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ:یعنی صلاۃ الخوف میں نماز کی حالت میں اذکار پورے نہیں ہو سکتے، اس لیے نماز پوری ہونے پر کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرو، تاکہ تلافی ہو جائے، اس کے علاوہ ہر حال میں ذکر کی کثرت ہونی چاہیے۔ جنگ کے موقع پر تو اللہ تعالیٰ نے اس کا خاص حکم دیا، فرمایا : ﴿ اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ [ الأنفال : ۴۵ ] ’’جب تم کسی گروہ کے مقابل ہو تو جمے رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ 2۔ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ: یعنی جب خوف کی حالت ختم ہو جائے اور دشمن کا کوئی خطرہ نہ رہے تو نماز کو اس کے پورے ارکان و شرائط اور حدود کے ساتھ مقررہ اوقات پر ادا کرو۔ ہاں سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھی ہیں، جیسا کہ عرفات، مزدلفہ اور دوسرے سفروں میں جمع کیا ہے، تو سفر میں جمع کرنے کی رعایت بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس سے تو وقت مقرر کرنے کا اختیار ہی نہ تھا۔ اس لیے اس کا وقت وہی ہے۔