سورة التكوير - آیت 24

وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یہ (محمد) غیب (یعنی وحی) کی باتیں بتانے پر بخیل بھی نہیں ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ:’’ضَنِيْنٌ‘‘ بخیل، یعنی اللہ تعالیٰ انھیں غیب کی جو بات بتاتے ہیں وہ اسے اپنے پاس ہی نہیں رکھ لیتے بلکہ امت تک پہنچا دیتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : (( مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَمَ شَيْئًا مِّمَّا أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَقَدْ كَذَبَ، وَاللّٰهُ يَقُوْلُ: ﴿ يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ﴾ )) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿یا أیھا الرسول بلغ....﴾ : ۴۶۱۲ ] ’’جو شخص تمھیں بتائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ پر نازل ہونے والی کوئی بات چھپائی ہے، تو اس نے یقیناً جھوٹ بولا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ﴾ [ المائدۃ : ۶۷ ] ’’اے رسول ! پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔‘‘ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ مطلب نکالا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے، کیونکہ بخل وہی کر سکتا ہے جس کے پاس کوئی چیز موجود ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا ہے : ﴿ قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﴾ [النمل : ۶۵ ] ’’(اے نبی !) کہہ دے، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا۔‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ لوگوں کو بتانے میں آپ بخل نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو غیب کی کچھ باتیں بتا دی جائیں تو وہ اس سے عالم الغیب نہیں بن جاتا، کیونکہ وہ صرف اتنی بات جانتا ہے زیادہ نہیں۔ ورنہ اگر اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب مانا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیب کی کئی باتیں بتائی ہیں تو امت کو بھی عالم الغیب ماننا پڑے گا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ بتایا گیا تھا آپ نے اللہ کے حکم کے مطابق وہ سب کچھ امت کو بتا دیا۔