يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
مسلمانو ! جب ایسا ہو کہ تم اللہ کی راہ میں (جنگ کے لیے) باہر جواؤ تو چہایے کہ (جن لوگوں سے مقابلہ ہو، ان کا حال) اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو (کہ وہ دشمنوں میں سے ہیں یا دوستوں میں سے ہیں) جو کوئی تمہیں سلام کرے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے) تو یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو ( ہم تم سے ضرور لڑیں گے) کیا تم دنیا کے سروسامن زندگی کے طلب گار ہو ( کہ چالتے ہو) جو کوئی بھی ملے اس سے لڑ کر مال غنیمت لوت لیں؟ اگر یہی بات ہے تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سی (جائز غنیمتیں موجود ہیں (تم ظلم و معصیت کی راہ کیوں اختیار کرو) تمہاری حالت بھی تو پہلے ایسی ہی تھی (اور بجز کلمہ اسلام کے اسلام کا اور کوئی ثبوت نہیں رکھتے تھے) پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (کہ تمام باتیں اسلامی زندگی کی حاصل ہوگئیں) پس ضوری ہے کہ (لڑنے سے پہلے) لوگوں کا حال تحقیق کرلیا کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے
1۔ فَتَبَيَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا:ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنی تھوڑی سی بکریوں کے پاس تھا، کچھ مسلمان وہاں سے گزرے، اس نے ’’اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ‘‘ کہا لیکن مسلمانوں نے اسے قتل کر ڈالا اور اس کی بکریاں لے لیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، جس میں ہے : ﴿ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ﴾ ’’تم دنیا کا سامان چاہتے ہو ؟‘‘ اس سے مراد وہ تھوڑی سی بکریاں ہیں۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ولا تقولوا لمن ألقیٰ....: ۴۵۹۱ ] 2۔ فَتَبَيَّنُوْا : یہاں تبین یعنی تحقیق کر لینے کا حکم سفر کے ساتھ ذکر کیا ہے، مگر یہاں سفر کی قید بیان واقعہ کے لیے ہے، یعنی یہ حادثہ جس سے متعلق آیت نازل ہوئی ہے، سفر میں پیش آیا تھا، ورنہ تحقیق کا حکم جس طرح سفر میں ہے اسی طرح حضر میں بھی ہے۔ (قرطبی) 3۔ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ: یعنی یہی حالت پہلے تمہاری تھی، تم کافروں کے شہر میں رہتے تھے اور اپنے ایمان کو چھپاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے دین کو غالب کر کے تم پر احسان کیا۔ (قرطبی)