فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا
(مسلمانو) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو فریق بن گئے ہو؟ حالانکہ اللہ نے ان بدعملیوں کی وجہ سے جو انہوں نے کمائی ہیں انہیں الٹآ دیا ہے (یعنی وہ راہ حق سے پھر چکے ہیں) کیا تم چاہتے ہو، ایسے لوگوں کو راہ دکھا دو جن پر خدا نے راہ گم کردی (یعنی جن پر خدا کے قانون سعادت و شقاوت کے بموجب ہدایت کی راہ بند ہوگئی ہے) اور (یاد رکھو) جس کسی پر اللہ راہ گم کردے (یعنی جس کسی پر اس کے قانون کا فیصلہ لگ جائے کہ اس کے لیے راہ پانا نہیں) تو پھر تم اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکال سکتے
یعنی تم ان منافقین کے بارے میں دو گروہ کیوں ہو گئے، تمھیں تو ان کے متعلق ایک رائے پر متفق ہونا چاہیے۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد کے لیے نکلے توکچھ لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ کر راستے ہی سے واپس ہو گئے، ان کے بارے میں مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے، ایک گروہ کہنے لگا، آپ انھیں قتل کریں اور دوسرا گروہ اس کے خلاف تھا، تو یہ آیت اتری : ﴿ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ ﴾ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ طیبہ ہے، یہ گند کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے آگ چاندی کے گند کو۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب : فما لکم فی المنافقین… : ۴۵۸۹ ] شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا، یہ حدیث اس آیت کے اسباب نزول میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔