وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا
اور (مسلمانو) جب کبھی تمہیں دعا دے کر سلام کیا جائے تو چاہیے کہ جو کچھ سلام و دعا میں کہا گیا ہے اس سے زیادہ اچھی بات جواب میں کہو یا (کم از کم) جو کچھ کہا گیا ہے اسی کو لوٹا دو بلاشبہ اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے (تمہاری کوئی چھوٹی سے چھوتی بات بھی اس کے محاسبہ سے چھوٹ نہیں سکتی)
وَ اِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ: جہاد کا حکم دینے کے بعد اب صلح کے بعض احکام بیان فرمائے، چنانچہ فرمایا کہ اگر کفار کی طرف سے جنگ ختم کرنے اور صلح کرنے کی کوئی پیش کش کی جاتی ہے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا کم از کم اتنی پیش کش ضرور قبول کرو۔ دوسری جگہ فرمایا : ﴿ وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ﴾ [ الأنفال : ۶۱ ] ’’اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تو بھی اس کی طرف مائل ہو جا اور اللہ پر بھروسا کر۔‘‘ ایک مصداق اس آیت کا یہ ہے کہ جہاد کے سفر کے دوران کوئی شخص اگر اطاعت کے اظہار کے لیے یا اسلام قبول کرنے کے اظہار کے لیے سلام کہے تو یہ کہہ کر اسے قتل مت کرو کہ تو مومن نہیں۔ (دیکھیے نساء : ۹۴) اور ایک مصداق وہ ہے جو آیت کے صریح الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ جب کوئی شخص تمھیں سلام کہے تو اسے اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو۔ ”تَحِیَّۃٌ“ ’’حَيَاةٌ‘‘ میں سے باب تفعیل کا مصدر ہے، زندگی کی یا سلامتی کی دعا دینا، مراد سلام ہے۔ بہتر جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ’’اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ‘‘ کے جواب میں ’’ وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ ‘‘ کا اضافہ اور ’’ اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ ‘‘ کے جواب میں ’’وَ بَرَكَاتُهٗ ‘‘ کا اضافہ کر دیا جائے، لیکن اگر کوئی شخص یہ سارے الفاظ بول دے تو انھی کے ساتھ جواب دیا جائے۔ ”وَمَغْفِرَتُهُ وَ رِضْوَانُهُ“ وغیرہ کا اضافہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہر لفظ کے اضافے کے ساتھ دس نیکیاں زیادہ ہوتی جائیں گی۔ [ أحمد :4؍439، ۴۴۰، ح : ۱۹۹۷۰ ] گویا کوئی شخص جتنا سلام کہے اتنا جواب دینا فرض ہے، زائد مستحب ہے۔