وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِندِكَ بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ ۖ وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ ۖ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا
اور (دیکھو) یہ لوگ تمہارے سامنے تو تمہاری باتیں مان لیتے ہیں، اور) کہتے ہیں آپ کا حکم ہمارے سر آنکھوں پر ! لیکن جب تمہارے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں، تو ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جو راتوں کو اپنی مجلسیں جماتے اور جو کچھ تم کہتے ہو، اس کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور راتوں کی (ان) مجلسوں میں وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ (کے علم سے چھپا نہیں، وہ ان کے نامہ اعمال میں) لکھ رہا ہے۔ پس (جب ان لوگوں کا حال یہ ہے تو) چاہیے کہ ان کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لو اور اللہ پر بھروسہ کرو۔ کارسازی کے لیے اللہ کی کارسازی بس کرتی ہے
وَ يَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ:یہاں منافقین کی ایک اور مذموم خصلت بیان فرمائی ہے اور ان کو سرزنش کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی حرکات سیئہ سے چشم پوشی اور اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم فرمایا ہے۔ ”بَيَّتَ“ کا لفظ اصل میں ’’بَيْتٌ ‘‘ (گھر) سے ہے اور انسان چونکہ عموماً رات کو گھر میں رہتا ہے، اس لیے ”بَاتَ“ کے معنی رات گزارنے کے ہیں، پھر چونکہ رات کے فارغ اوقات میں آدمی اپنے معاملات پر غور و فکر کرتا ہے، اس لیے ”بَيَّتَ“ کا لفظ کسی معاملہ میں نہایت غور و فکر کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ (رازی) یعنی دن کو وہ آپ کے سامنے اطاعت کا یقین دلاتے ہیں مگر رات کو ان کے بعض گروہ اس کے برعکس مشورے کرتے ہیں جو وہ دن کو آپ کے سامنے کہہ رہے تھے۔ اس ’’طائفة‘‘ سے مراد لیڈر ہیں، کیونکہ عام لوگ تو ان کے پیچھے چلنے والے ہیں۔