سورة النسآء - آیت 75

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے مسلمانو) تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجیے، اور ہمار لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجیے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ: اس آیت کا تعلق بھی ترغیب جہاد سے ہے، یعنی دو وجوہ کی بنا پر تمہارے لیے کفار سے لڑنا ضروری ہے، اول اعلائے کلمۃ اللہ، یعنی اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے، دوم ان مظلوم مسلمانوں کو نجات دلانے کے لیے جو کفار کے چنگل میں بے بس پڑے ہیں۔ (قرطبی) مکہ معظمہ میں بہت سے لوگ ایسے رہ گئے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت نہ کر سکے تھے اور ان کے اقارب ان پر تشدد کرنے لگے تھے، تاکہ انھیں اسلام سے پھیر کر پھر کافر بنا لیں۔ پس ”الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا“ سے مراد مکہ ہے اور مشرک ہونے کی وجہ سے یا مظلوم مسلمانوں کو ستانے کی وجہ سے اس کے باشندوں کو ظالم فرمایا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں اور میری والدہ بھی ان ”الْمُسْتَضْعَفِيْنَ“ (بے بس مسلمانوں) میں شامل تھے (جنھیں اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا)۔ [ بخاری، التفسیر، باب :﴿إلا المستضعفین من… ﴾ : ۴۵۹۷ ] مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ”مستضعفين“ کے حق میں نام لے کر دعا فرمایا کرتے تھے: (( اَللّٰهُمَّ اَنْجِ الْوَلِيْدَ بْنَ الْوَلِيْدِ وَ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ وَ عَيَّاشَ بْنَ أَبِيْ رَبِيْعَةَ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ )) ’’یا اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور (مکہ میں گھرے ہوئے) دوسرے بے بس مسلمانوں کو رہائی دلا۔‘‘ [ بخاری، الأذان، باب یھوی بالتکبیر حین یسجد : ۸۰۴، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] افسوس کہ اس وقت مسلمان کفار کے مختلف ممالک کی غلامی میں بے بس ہیں، وہ انھیں نہ آزادی دیتے ہیں، نہ نکلنے دیتے ہیں اور نہ کوئی مسلمان ملک انھیں قبول کرنے کے لیے تیار ہے، بتائیں اس وقت سے بڑھ کر جہاد کب فرض ہو گا؟ آیت میں مسلمانوں کو تمام مظلوم اور بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے لڑنے کا حکم ہے، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، جیسے اس وقت بھارت میں مسلمان اور شودر ہندو دونوں ظلم کا شکار ہیں۔