سورة النسآء - آیت 72

وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَن لَّيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُن مَّعَهُمْ شَهِيدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یقینا تم میں کوئی ایسا بھی ضرور ہوگا جو (جہاد میں جانے سے) سستی دکھائے گا، پھر اگر (جہاد کے دوران) تم پر کوئی مصیبت آجائے تو وہ کہے گا کہ اللہ نے مجھ پر بڑا انعام کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ موجود نہیں تھا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

یہ مسلمانوں میں منافقوں کے کردار کا تذکرہ ہے، یعنی ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو دیدہ و دانستہ اور حیلوں بہانوں سے جہاد پر نکلنے میں دیر کرتے ہیں اور پیچھے رہ جانے کی کوشش کرتے ہیں، پھر اگر اس سفر جہاد میں مسلمانوں کو کچھ تکلیف پہنچے تو بڑے خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں پیچھے رہ گیا، ورنہ مجھے بھی وہ دکھ اٹھانا پڑتا جو دوسرے مسلمانوں نے اٹھایا ہے اور اگر مسلمانوں کو فتح و خوشی نصیب ہو اور غنیمت کا مال ہاتھ لگے تو حسرت سے کہتے ہیں کہ اگر ہم بھی ان میں شامل ہوتے تو ہمارا بھی کام بن جاتا۔ یہ جملہ وہ اس انداز سے ادا کرتے جیسے پہلے ان کا اور مسلمانوں کا کوئی تعلق تھا ہی نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں انھیں محض دنیاوی تکلیف اور دنیاوی مفادات ہی کا احساس ہوتا ہے، اخروی زندگی یا رضائے الٰہی سے انھیں کبھی غرض نہیں ہوتی اور یہی ان کے منافق ہونے اور اللہ اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے کی دلیل ہے۔