يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَّهِيلًا
یہ عذاب اس دن وہگا جب کہ زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں گے اور پہاڑ پھسلنے والے ریت کے تودوں کی طرح ہوجائیں گے
يَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ....: ’’كَثِيْبًا‘‘ریت کا ٹیلہ۔ ’’مَهِيْلًا‘‘ ( گرایا ہوا) ’’هَالَ يَهِيْلُ هَيْلًا‘‘سے اسم مفعول ہے۔ ’’هَالَ التُّرَابَ أَوِ الرَّمْلَ‘‘ اس نے مٹی یا ریت کو گرایا۔ یعنی وہ عذاب اس دن ہو گا جب سخت زلزلے سے پہاڑ لرز اٹھیں گے، پھر اس زلزلے کی شدت سے ان کی سختی اور ذرات کی باہمی بندش ختم ہو جائے گی اور وہ ٹھوس پہاڑوں کے بجائے ریت کے ٹیلوں کی صورت میں بدل جائیں گے، جو خود بخود اس طرح نیچے گر رہی ہو گی جیسے کوئی اسے گرا رہا ہو۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر پہاڑوں پر اس کے بعد گزرنے والی کیفیات بھی ذکر ہوئی ہیں کہ وہ دھنی ہوئی اون کی طرح ہو جائیں گے، پھر بادلوں کی طرح اڑنے لگیں گے، پھر زمین چٹیل میدان بن جائے گی۔ مزید دیکھیے سورۂ نبا (۲۰) کی تفسیر۔