وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم ایسے باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور ہم انہیں گھنی چھاؤں میں داخل کریں گے۔ (٤٠)
1۔ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: قرآن پاک میں عموماً وعدہ اور وعید کو ایک ساتھ بیان فرمایا گیا ہے اور اس اسلوب کی وجہ سے قرآن کو ”كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا“ فرمایا ہے اور وعظ و تذکیر کا یہ مؤثر ترین انداز ہے۔ بعض نے اس آیت سے سمجھا ہے کہ عمل صالح ایمان سے الگ چیز ہے، کیونکہ یہ دونوں عطف کے ساتھ آئے ہیں، مگر قرآن نے متعدد آیات میں عمل صالح پر زور دینے کے لیے عمل صالح کو الگ عطف کے ساتھ بیان کر دیا ہے، ورنہ یہ بھی ایمان میں داخل ہے۔ (دیکھیے سورۂ عصر کی تفسیر) جنت کی نہروں کا بیان سورۂ محمد کی آیت (۱۵) میں دیکھیے”اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ“کے لیے سورۂ رحمن کا آخری حصہ اور سورۂ بقرہ کی آیت(۲۵) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ 2۔ وَ نُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيْلًا: اسی سائے کو دوسری آیت میں ”ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ“ فرمایا ہے۔ (دیکھیے سورۂ واقعہ : ۲۷ تا ۳۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جنت میں ایک درخت ایسا ہے جس کے سائے میں سوار سو برس تک چلے گا پھر بھی اسے طے نہ کر پائے گا۔ ‘‘ [ بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ....: ۳۲۵۱، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ایک حدیث میں اس درخت کا نام ’’شجرۃ الخلد ‘‘ آیا ہے۔ [ أحمد :2؍455 ح : ۹۸۸۳ ]