أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِيلَ
جن لوگوں کو کتاب (یعنی تورات کے علم) میں سے ایک حصہ دیا گیا تھا، کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا کہ وہ (کس طرح) گمراہی مول لے رہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ۔
1۔ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا: اس سے پہلے ﴿ وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْـًٔا ﴾ میں مشرکین کے طرزِ عمل سے متنبہ کرنے کے بعد درمیان میں ضرورت کے کچھ مسائل، مثلاً شراب، نماز اور تیمم وغیرہ ذکر کرنے کے بعد یہود کے فریب اور ان کی دشمنی کا ذکر تفصیل سے شروع ہو گیا ہے۔ یہود کو تیمم میں بھی مسلمانوں سے حسد تھا۔ اسی حسد کی بنا پر وہ خود مسلمان ہونے کے بجائے چاہتے تھے کہ مسلمان بھی کافر ہو جائیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ ﴾ [ البقرۃ : ۱۰۹ ] ’’بہت سے اہل کتاب چاہتے ہیں کہ کاش! وہ تمھیں تمہارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں، اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے۔‘‘ 2۔ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ: یعنی انھیں کتاب کا کچھ حصہ ہی ملا ہے، باقی ضائع کر بیٹھے ہیں اور یہ بھی مراد ہے کہ جو حصہ ملا ہے اس کے الفاظ ملے ہیں، عمل کا حصہ عطا نہیں ہوا اور یہ بھی کہ تورات میں انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کی نبوت تو معلوم کر لی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت معلوم نہ کر سکے۔