وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ
خبردار تو کسی ایسے کی طاعت نہ کرنا اور نہ اس کی بات ماننا جو بہت ساری قسمیں کھاتا ہے آبرو وباختہ ہے
1۔ وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍ : ’’ حَلَّافٍ ‘‘ ’’حَلَفَ يَحْلِفُ‘‘ (ض) سے مبالغہ ہے، بہت قسمیں کھانے والا۔ ’’ مَهِيْنٍ ‘‘ ’’مَهُنَ يَمْهُنُ مَهَانَةً‘‘ ( ک) ( حقیر، ذلیل ہونا) سے ’’فَعِيْلٌ‘‘ کے وزن پر ہے، حقیر، ذلیل۔ یہ دونوں صفتیں ایک دوسرے کو لازم ہیں، زیادہ قسمیں کھانے سے آدمی لوگوں کی نظر میں ذلیل ہو جاتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل اور بے اعتبار ہونے ہی کی وجہ سے وہ زیادہ قسمیں کھاتا ہے، تاکہ اپنی بات کا یقین دلائے، کیونکہ وہ خود سمجھتا ہے کہ لوگوں کے دل میں نہ اس کی عزت ہے نہ اعتبار۔ 2۔ ان چھ آیات (۱۰ تا ۱۵) میں مذکور بری خصلتوںوالے شخص سے بعض مفسرین نے ایک خاص شخص مراد لیا ہے، مگر آیت کے الفاظ عام ہیں : ﴿وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍ ﴾ کہ ’’ایسی خصلتوں والے کسی شخص کا کہنا مت مان‘‘ اس لیے ان خصلتوں والا ہر شخص آیت کا مصداق ہے۔ اس سے پہلی آیات میں مکذبین کی اطاعت سے منع فرمایا تھا، اب انھی جھٹلانے والوں کا ذکر ان خصلتوں کے ساتھ کیا ہے جو دین کو جھٹلانے کی وجہ سے عام طور پر آدمی میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ سب کفر کی صفات ہیں، آدمی کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں سے کوئی بھی خصلت اس کے اندر پیدا نہ ہونے پائے۔