سورة الطلاق - آیت 12

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمین کو بھی پیدا کیا، ان آسمانوں اور زمین میں اللہ کا حکم نازل ہوتا رہتا ہے تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ نے اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ....: سورت کے آخر میں اس کے اندر مذکور احکام کی عظمت کی طرف توجہ دلانے کے لیے آسمان و زمین کی پیدائش، ان میں اپنے اوامر کے نزول اور اپنے علم و قدرت کا ذکر فرمایا، تاکہ یہ بات مد نظر رہے کہ یہ احکام دینے والا کون ہے۔ بارہ (۱۲) آیات پر مشتمل اس سورت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کے تقویٰ کے ساتھ شروع ہوا ہے جو اس کے نام، اس کی ضمیر اور اس کی طرف نسبت کی صورت میں تقریباً تیس (۳۰) مرتبہ آیا ہے اور آخر میں پھر اس عظیم ہستی کا تعارف ان صفات کے ساتھ دہرایا ہے۔ (ابن عاشور) خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ : سات آسمانوں کی کیفیت تو اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اوپر تہ بہ تہ ہیں، جیساکہ فرمایا : ﴿ اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا﴾ [ نوح : ۱۵ ] ’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح اللہ نے سات آسمانوں کو اوپر تلے پیدا کیا۔‘‘ وَ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ : قرآن مجید میں آسمان کا ذکر واحد کے صیغے ’’ السَّمَاءُ ‘‘ کے ساتھ بھی آیا ہے اور جمع کے صیغے ’’سَمٰوٰتٍ ‘‘ کے ساتھ بھی، مگر زمین کا ذکر واحد کے صیغے کے ساتھ ہی آیا ہے، آسمانوں کی طرح اوپر تلے سات زمینیں ہونے کا ذکر نہیں فرمایا۔ یہاں فرمایا اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مثل یعنی مانند۔ مانند ہونے کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ زمین بھی اپنی عظمت، برکت، آبادی اور کُرویت (گول ہونے) میں آسمانوں کی طرح ہے۔ دوسرا مطلب جو اکثر مفسرین نے مراد لیا ہے، یہ ہے کہ سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی اوپر تلے سات ہیں۔ اس کی دلیل میں وہ صحیح حدیث پیش کی ہے جو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ أَخَذَ مِنَ الْأَرْضِ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ خُسِفَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلٰي سَبْعِ أَرَضِيْنَ )) [ بخاري، المظالم، باب إثم من ظلم شیئا من الأرض : ۲۴۵۴ ] ’’جو شخص زمین میں سے کچھ بھی اس کے حق کے بغیر لے گا اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔‘‘ حدیث میں مذکور سات زمینوں سے مراد تو ظاہر ہے کہ اسی زمین کے سات طبقات ہیں جس پر ہم رہتے ہیں، لیکن کیا آیت میں مذکور سات زمینوں سے بھی یہی طبقات مراد ہیں یا ہماری زمین جیسی اور چھ زمینیں ہیں، یہ بات اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ کائنات کی بے پناہ وسعتوں کو دیکھیں تو کچھ بعید نہیں کہ ہماری زمین جیسی اور زمینیں بھی ہوں جو ہماری زمین ہی کی طرح آباد ہوں، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ مَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُوَ﴾ [ المدثر : ۳۱ ] ’’اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے اکیلے ہی آسمان و زمین کو پیدا فرمایا، کوئی اس وقت موجود نہ تھا کہ ان کے اسرار سے پوری طرح واقف ہو، جیسا کہ فرمایا : ﴿ مَا اَشْهَدْتُّهُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾ [ الکھف : ۵۱ ] ’’میں نے انھیں آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں حاضر نہیں کیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایجاد کا جو سلیقہ عطا فرمایا ہے جس سے بڑی بڑی طاقتور دوربینیں ایجاد ہوئی ہیں، ہیئت دان ان کے ساتھ کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہر دن نئے سے نیا انکشاف ہوتا ہے ۔ ہمارے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات پیدا فرمائی ہیں۔ رہی ان کی کیفیت اور متعین مراد، تو وہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ اس نے اسے مجمل رکھا ہے تو اس میں ہماری بہتری ہے، کیونکہ اگر اس کی واقعی کیفیت بیان ہوتی تو اپنی ذہنی نارسائی کی وجہ سے ممکن تھا کہ کئی لوگ انکار ہی کر دیتے۔ يَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ : اللہ تعالیٰ کا امر دو قسم کا ہے، ایک امر کونی ہے، یعنی وہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے ’’ كُنْ‘‘ (ہو جا) کہتا ہے تو وہ ہوجاتی ہے اور ایک امر شرعی ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سے اپنے احکام نازل فرماتا رہتا ہے، یعنی آسمانوں اور زمینوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کے اوامر کونی اور اوامر شرعی اترتے رہتے ہیں۔ اس میں بھی اس سورت میں مذکور احکام کی اہمیت کا اظہار ہو رہا ہے کہ وہ ان عظیم الشان آسمانوں اور زمینوں کے خالق و مالک کے احکام ہیں۔ لِتَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ وَّ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا : یعنی زمین و آسمان کی پیدائش کی یہ بات تمھیں اس لیے بتائی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی ہر چیز پر پوری قدرت کو اور اس کے ہر چیز پر علم کے ساتھ احاطے کو جان لو۔ پھر جب تم اس کی قدرت اور علم سے واقف ہو جاؤ گے تو اس کے احکام کی نافرمانی کی جرأت نہیں کرو گے۔