سورة الطلاق - آیت 7

لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

صاحب وسعت کو اپنی وسعت کیمطابق خرچ کرنا چاہیے اور جو تنگ دست ہوتوجوکچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دیا ہے اس کواسی میں خرچ کرنا چاہیے اللہ نے جتنا کچھ کسی کودی ہے اس سے زیادہ کی اسے تکلیف نہیں دیتا اللہ تعالیٰ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا کرتا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ....: اس سے معلوم ہوا کہ نفقہ میں بیوی کی حالت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ خاوند کی حالت کے مطابق نفقہ واجب ہوگا۔ اگر خاوند وسعت والا اور مال دار ہے تو اس کے مطابق خرچ کرے گا اور اگر وہ تنگدست ہے تو اللہ نے اسے جو کچھ دیا ہے اس میں سے اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرے۔ سَيَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا : اس میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو خاوند حسب مقدور وہ خرچے پورے کرتے ہیں جو ان کے ذمے ہیں اور ان میں بخل نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے تنگی کے بعد آسانی کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور پیدا فرما دے گا۔ ’’ سَيَجْعَلُ ‘‘ میں ’’سین‘‘ استقبال کے علاوہ تاکید کا مفہوم بھی رکھتا ہے۔ ’’ عُسْرٍ ‘‘ اور ’’ يُسْرًا ‘‘ دونوں میں تنوین تنکیر کے لیے ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس آسانی پیدا کرنے کی بے شمار صورتیں ہیں، تنگی خواہ کسی قسم کی ہو اللہ تعالیٰ اس میں آسانی کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا فرما سکتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ تنگی میں اپنی طاقت کے مطابق دریغ نہ کرے، اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتا رہے، تو اللہ تعالیٰ تنگی کے بعد خواہ کوئی ہو ضرور ہی آسانی کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا فرما دے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5) اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا﴾ [ الانشراح : 6،5 ] ’’پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے۔ بے شک اسی مشکل کے ساتھ ایک اور آسانی ہے۔‘‘