سورة الطلاق - آیت 3

وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اسے ایسی جگہ سے رزق پہنچائے گا جہاں سے (کچھ ملنے کا) اسے خیال تک نہ ہو اور جس نے اللہ پربھروسہ کیا سو اللہ کی اعانت ونصرت اس کے لیے بس کرتی ہے بے شک اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے بلاشبہ اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ : مفسر عبدالرحمن کیلانی لکھتے ہیں : ’’اس مقام پر رزق کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ انسان دوران عدت مطلقہ عورت پر خرچ کرنے اور اس کو بھلے طریقے سے رخصت کرنے میں بخل سے کام نہ لے، بلکہ اس سے جتنا بہتر سلوک کر سکتا ہے کرے۔ نیز بعض دفعہ صورت حال یہ ہوتی ہے کہ میاں بیوی کی آپس میں ٹھنی رہتی ہے، مگر عورت صاحب جائداد ہوتی ہے یا اچھا کما سکتی ہے تو خاوند اس کو چھوڑنے ہی پر آمادہ نہیں ہوتا، مگر اس سے اچھا سلوک کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوتا ہے، لہٰذا وہ عورت کو اپنے ہاں لٹکائے رکھتا ہے۔ ایسی سب صورتوں میں اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی کام کرنا چاہیے جو اللہ کا حکم ہو، تنگ دستی سے نہیں ڈرنا چاہیے، کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اس سے ڈر کر اسی کے حکم کے مطابق چلے گا تو اس کی تنگدستی کو دور کرنا اللہ کے ذمے ہے، وہ اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچانے کا انتظام فرما دے گا جو پہلے اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔‘‘ (تیسیر القرآن) وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ....: یعنی جو شخص غلط کام سے بچتے ہوئے حق پر قائم رہے اور اپنا معاملہ اور نفع و نقصان اللہ کے سپرد کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے کافی ہو جائے گا، کیونکہ ہر قسم کے ظاہری اور باطنی اسباب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، جب کہ انسان کی نظر صرف چند ظاہری اسباب تک محدود ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے اپنے ڈرنے والے کے لیے پریشانیوں سے نجات کی راہ پیدا کر سکتا ہے اور وہ پریشانی اور تنگدستی دور کرنے کے لیے نئے اسباب بھی پیدا فرما سکتا ہے اور اسباب کے بغیر بھی جو چاہے کر سکتا ہے، کیونکہ اس کی قدرت اسباب کی پابند نہیں بلکہ اسباب اس کی مشیت کے تابع ہیں۔ وہ ظاہری اسباب سے بھی ایسے نتائج ظاہر کر سکتا ہے جو انسانی عقل کے برعکس ہوں، وہ نہ چاہے تو مجرب دوا بھی شفا کے بجائے بیماری کا باعث بن جاتی ہے اور چاہے تو مضر صحت چیز شفا کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا : یعنی اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے باوجود نکلنے کی راہ نہیں ملی اور نہ ہی اللہ پر توکل کے باوجود اس کی پریشانی دور ہوئی ہے تو اسے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر اور حوصلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کشادگی کا منتظر رہنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا اسے ہر حال میں پورا کرنے والا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ اور وقت اپنے کامل علم کے ساتھ شروع سے مقرر فرمایا ہے، اس مقرر وقت پر اس کا توکل کرنے والوں کے لیے کافی ہو جانے کا وعدہ ضرور پورا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ تقدیر پر ایمان ہی انسان کو مشکلات میں صبر اور حوصلہ دلاتا ہے، فرمایا : ﴿قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَا اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا هُوَ مَوْلٰىنَا وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ [ التوبۃ : ۵۱ ] ’’کہہ دے ہمیں ہرگز نہیں پہنچے گا مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہی ہمارا مالک ہے اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ ایمان والے بھروسا کریں۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ قمر (۴۹)، فرقان (۲)، رعد (۸) اور سورۂ حجر (۲۱)۔