لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
جن لوگوں نے تم سے دین کے لیے جنگ نہیں کی اور تم کو گھروں سے نہیں نکالا اللہ تعالیٰ اس سے نہیں روکتا کہ تم ان کے ساتھ احسان اور بھلائی کرو اور انصاف کے ساتھ پیش آؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے
لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ ....: اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو دو گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے۔ ایک محارب جو مسلمانوں سے ضد اور عناد رکھتے تھے، انھیں ایذا دینے، ان کے گھروں سے نکالنے اور ان سے لڑنے میں سرگرم تھے، یا ایسے لوگوں کی پشت پناہی اور مدد کرتے تھے۔ دوسرے مُسالم جو کافر تو تھے مگر روادار تھے، غیر جانبدار بن کر رہے، مسلمانوں کو نہ کوئی دکھ پہنچایا اور نہ ان کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ لیا۔ ان میں مکہ کے اردگرد رہنے والے کئی قبائل تھے، جیسے بنو خزاعہ اور بنو حارث وغیرہ جو مسلمانوں کے حلیف تھے یا کفار قریش کے مقابلے میں مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ اہلِ مکہ میں بھی اس طرح کے کئی لوگ تھے، خصوصاً بنو ہاشم اور بنو مطلب کے اکثر لوگوں کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ تھیں۔ مہاجرین کی بہت سی رشتہ دار عورتیں اور بچے جو مکہ میں تھے اور ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر ان سے انس اور تعلق رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی دلی خواہش ایسے لوگوں سے تعلق رکھنے کی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ایسے لوگوں سے نیک سلوک اور ان کے حق میں انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما بیان کرتی ہیں کہ میری ماں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں (معاہدۂ صلح کے دوران حسنِ سلوک کی) امید رکھتے ہوئے میرے پاس آئی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ’’کیا میں اس سے حسن سلوک کروں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں!‘‘ ابن عیینہ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی : ﴿ لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ﴾ ’’اللہ تمھیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی۔‘‘ [بخاري، الأدب، باب صلۃ الوالد المشرک : ۵۹۷۸ ] اسی طرح ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک ریشمی حلہ عطا فرمایا، انھوں نے وہ اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں رہتا تھا۔ [ بخاري، الأدب، باب صلۃ الأخ المشرک : ۵۹۸۱ ]