سورة الحشر - آیت 18

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ : غزوۂ بنو نضیر میں مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات، یہود کی عہد شکنی کی سزا اور منافقین کی ریشہ دوانیوں اور ان کے انجام کے ذکر کے بعد تمام مسلمانوں کو نصیحت کی جا رہی ہے۔ ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ مخلص مسلمانوں کو بھی خطاب ہے اور منافق مسلمانوں کو بھی جو یہود سے دوستی رکھتے اور انھیں اپنی مدد کا یقین دلاتے تھے۔ دونوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور قیامت کے دن کی تیاری کی نصیحت کی گئی ہے، تاکہ مخلص مسلمان د نیا میں ملنے والی فتوحات اور نعمتوں کی خوشی میں آخرت کی تیاری کو نہ بھول جائیں اور منافقین میں سے جن کے دلوں میں ایمان کی کوئی رمق باقی ہے وہ اپنی روش پر نادم ہوں اور اللہ سے ڈر کر نفاق سے باز آجائیں اور آنے والے وقت کی فکر کرلیں۔ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ : ’’ اتَّقُوا اللّٰهَ ‘‘ پر ’’وَانْظُرُوْا‘‘کے ساتھ عطف کے بجائے ’’وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ‘‘کے ساتھ عطف یہ احساس دلانے کے لیے ڈالا گیا ہے کہ یہ حکم ہرشخص کے لیے ہے۔ ’’ نَفْسٌ‘‘ کو نکرہ لانے سے بھی عموم مراد ہے۔ گویا ’’ نَفْسٌ‘‘ یہاں ’’ كُلُّ نَفْسٍ‘‘ کے معنی میں ہے، کیونکہ جس طرح نکرہ نفی کے سیاق میں آئے تو عموم مراد ہوتا ہے، اسی طرح اگر نکرہ امر، دعا اور ان جیسی چیزوں مثلاً شرط کے سیاق میں آئے تو وہاں بھی عموم مراد ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ﴾ [ التوبۃ : ۶ ] ’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی ایک تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دے۔‘‘ (ابن عاشور) مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ : ’’غَدٌ‘‘ (کل) سے مراد آخرت ہے۔ دنیا آج ہے اور آخرت کل، جو مرنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ دور ہونے کے باوجود اسے ’’غَدٌ‘‘ کہنے میں یہ سبق ہے کہ اسے دور مت سمجھو، کیونکہ جو آنے والا ہے وہ قریب ہی ہے، خصوصاً جس کا علم ہی نہ ہو کہ کب آئے گا اور جو اگلے لمحے ہی آ سکتا ہو اس کے ’’ غَدٌ ‘‘ ہونے میں کیا شبہ ہے۔ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : یہاں ’’ اتَّقُوا اللّٰهَ ‘‘ کو دوبارہ لایا گیا ہے، اس کی تین توجیہیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں، ایک یہ کہ تکرار کا مقصد اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی تاکید ہے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ پہلے ’’ اتَّقُوا اللّٰهَ ‘‘ کے ساتھ اللہ سے ڈرنے کا اور آخرت کی تیاری کا حکم دیا، اس کے بعد ’’ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ‘‘ کے ساتھ اس کی وجہ بیان کرنا تھی، کیونکہ ’’إِنَّ‘‘ تعلیل کے لیے ہوتا ہے، لیکن چونکہ پہلے ’’ اتَّقُوا اللّٰهَ ‘‘ کے بعد فاصلہ زیادہ ہو رہا تھا، اس لیے ’’ اتَّقُوا اللّٰهَ ‘‘ کو دوبارہ لا کر اس کی وجہ بیان فرما دی کہ اللہ سے ڈر جاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ تمھارا کوئی کام اس سے مخفی نہیں جس پر تم اس کی گرفت سے بچ جاؤ، یا اچھا ہے تو اس کے انعام سے محروم رہو۔ تیسری توجیہ یہ ہے کہ پہلے ’’ اتَّقُوا اللّٰهَ ‘‘ سے مراد تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم ہے جس کی بدولت آدمی نیکی کرتا ہے اور گناہ سے بچتا ہے اور دوسرے ’’ اتَّقُوا اللّٰهَ ‘‘ سے مراد اس پر دوام ہے، یعنی ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو، کیونکہ تم جو کچھ کرتے ہو یا کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس معنی کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ بعد میں فرمایا : ﴿ وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ ﴾ اور ان لوگوں یعنی منافقین کی طرح نہ ہو جاؤ جو (ایمان لانے کے بعد) اللہ کو بھول گئے، بلکہ ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو۔