سورة الحديد - آیت 13

يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پس اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے ذرا انتظار کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں مگر ان سے کہا جائے گا کہ ایسا نہیں ہوسکتا (آگے مت بڑھو) پیچھے ہٹو اور کوئی اور روشنی تلاش کرواتنے میں ان (مومنوں اور منافقوں) درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا اور اس کے اندر رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی جانب عذاب ہوگا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ ....: دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ رہنے کی طرح منافقین وہاں بھی شروع میں ایمان والوں کے ساتھ ہوں گے، مگر جب وہ اپنے ایمان کی روشنی میں جنت کی جانب روانہ ہوں گے کہ تو منافق مرد اور عورتیں ان سے کہیں گے ہمارے پاس روشنی نہیں، تم ہمیں اندھیرے میں چھوڑ کر اتنی تیزی سے نہ جاؤ، بلکہ تھوڑا انتظار کر لو اور ہمیں موقع دو کہ ہم بھی تمھاری روشنی میں جنت کی طرف چلتے جائیں۔ قِيْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ ان سے کہا جائے گا کہ میدان حشر جہاں جنت یا جہنم میں بھیجے جانے کا فیصلہ ہوا ہے اور جہاں سے روشنی ملتی ہے، تم وہیں واپس جاؤ اور وہاں روشنی تلاش کرو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ ایمان و عمل کی روشنی ہے جو یہاں حاصل نہیں ہو سکتی، اسے حاصل کرنے کی جگہ دنیا ہے، وہاں جاؤ اور وہاں سے یہ روشنی لے کر آؤ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ ....: مومن و منافق یہ باتیں کر ہی رہے ہوں گے کہ ان کے درمیان ایک عظیم دیوار حائل کر دی جائے گی (بِسُوْرٍ میں تنوین تعظیم کی ہے) جس سے انھیں دور سے دکھائی دینے والی مومنوں کی روشنی بھی نظر آنا ختم ہو جائے گی۔ اس دیوار کی اندرونی جانب رحمت ہوگی اور بیرونی جانب جدھر منافق ہوں گے، عذاب ہو گا۔ اس دیوار میں ایک عظیم دروازہ ہو گا، جس سے مومن اس کی اندرونی جانب چلے جائیں گے، پھر دروازہ بند کر دیا جائے گا اور منافق اس سے باہر عذاب میں رہ جائیں گے۔