وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا
تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کریں، ان پر اپنے میں سے چار گواہ بنا لو۔ چنانچہ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں روک کر رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کرلے جائے، یا اللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کردے۔ (١٤)
1۔ وَ الّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ: اوپر کی آیات میں عورتوں کے ساتھ احسان اور ان کے مہر ادا کرنے اور مردوں کے ساتھ ان کو وراثت میں شریک قرار دے کر ان کے حقوق کی حفاظت کا بیان تھا، اب یہاں سے عورتوں کی تادیب اور ان پر سختی کا بیان ہے، تاکہ عورت اپنے آپ کو بالکل ہی آزاد نہ سمجھے۔ (قرطبی) پہلی آیت میں زنا کار عورتوں کی سزا بیان کی کہ زنا شہادت سے ثابت ہو جائے تو انھیں تاعمر گھر میں محبوس رکھا جائے، یہاں تک کہ وہ مرجائیں، یا اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں کوئی دوسری سزا نازل فرما دے۔ اسلام میں زنا کار عورتوں کے لیے یہ پہلی سزا ہے جو بعد میں حد زنا نازل ہونے سے منسوخ ہو گئی۔ سورۂ نور میں جو سو کوڑوں کی سزا نازل ہوئی ہے، یہاں ”سَبِيْلًا“ سے اسی طرف اشارہ ہے۔ دوسری آیت میں زانی مرد اورزنا کار عورت کے متعلق یہ حکم دیا گیا کہ ان کو اذیت دی جائے اور ذلیل کیا جائے، حتیٰ کہ تائب ہو جائیں، یہ سزا پہلی سزا کے ساتھ ہی ہے، بعد میں یہ دونوں سزائیں منسوخ ہو گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھ سے (احکام دین) لو، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل پیدا فرما دی ہے کہ کنوارا کنواری کے ساتھ (زنا کرے) تو اس کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور سنگسار ہے۔‘‘ [ مسلم، الحدود، باب حد الزنی : ۱۶۹۰، عن عبادۃ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ ] مزید دیکھیے سورۂ نور (۲)۔ (ابن کثیر، قرطبی) 2۔ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ: چونکہ زنا کی سزا نہایت سخت ہے، اس لیے اس پر گواہی بھی زیادہ مضبوط رکھی۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جو چیز شمار کی جا رہی ہے، وہ مذکر ہو تو عدد مؤنث ہوتا ہے، اس لیے ”اَرْبَعَةً“ کی وجہ سے ترجمہ ’’چار مرد‘‘ کیا ہے۔ 3۔ وَ الَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا:بعض علماء نے اس سے مراد قوم لوط کا عمل کرنے والے دو مرد لیے ہیں، اگرچہ ”وَ الَّذٰنِ“ کے لفظ میں، جو تثنیہ مذکر کے لیے آتا ہے، اس کی گنجائش ہے، مگر یہ مطلب نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے، نہ کسی صحابی سے، بلکہ طبری اور ابن ابی حاتم نے اپنی حسن سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ عورت جب زنا کرتی تو گھر میں بیٹھی رہتی یہاں تک کہ فوت ہو جاتی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ﴿وَ الَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَا﴾ کے متعلق فرمایا کہ مرد جب زنا کرتا تو اسے تعزیر اور جوتے مارنے کے ساتھ ایذا دی جاتی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿اَلزَّانِيَةُ وَ الزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ﴾ [ النور : ۲ ] یعنی زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد کو سو سو کوڑے مارو۔ پھر اگر وہ شادی شدہ ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق انھیں رجم کر دیا جائے گا۔ یہ ہے وہ ’’سبیل‘‘ جو اللہ نے فرمایا : ﴿اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيْلًا ﴾ (یہاں تک کہ انھیں موت اٹھا لے جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے) اسی طرح طبری نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد سے نقل کیا ہے کہ ﴿وَ الَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا مِنْكُمْ ﴾ سے مراد زنا کرنے والے مرد و عورت ہیں۔ علاوہ ازیں ”يَاْتِيٰنِهَا“ میں ’’ها‘‘ کی ضمیر پچھلی آیت میں مذکور ’’الْفَاحِشَةَ ‘‘ کی طرف جا رہی ہے جس سے اس مقام پر مراد زنا ہے۔ اس فاحشہ سے مراد قوم لوط کا عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ رہا ”الَّذٰنِ“ تثنیہ مذکر کا لفظ تو دو افراد اگر مذکر و مؤنث ہوں تو ان کے لیے تثنیہ مذکر کی ضمیر عام استعمال ہوتی ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔