سورة النسآء - آیت 6

وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یتیموں کو جانچتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے لائق عمر کو پہنچ جائیں، تو اگر تم یہ محسوس کرو کہ ان میں سمجھ داری آچکی ہے تو ان کے مال انہی کے حوالے کردو۔ اور یہ مال فضول خرچی کر کے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں۔ اور (یتیموں کے سرپرستوں میں سے) جو خود مال دار ہو وہ تو اپنے آپ کو (یتیم کا مال کھانے سے) بالکل پاک رکھے، ہاں اگر وہ خود محتاج ہو تو معروف طریق کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کھا لے۔ (٦) پھر جب تم ان کے مال انہیں دو تو ان پر گواہ بنا لو، اور اللہ حساب لینے کے لیے کافی ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ ابْتَلُوا الْيَتٰمٰى: بلوغت کے لیے مرد کی علامت احتلام اور عورت کی حیض ہے، علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’میں نے (بلوغت کے سلسلے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یہ یاد رکھا ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور دن سے لے کر رات تک خاموشی نہیں۔‘‘ [ أبو داؤد، الوصایا، باب ما جاء متی ینقطع الیتم : ۲۸۷۳، و قال الألبانی صحیح ] عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’قریظہ کے دن ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو جس کے (زیر ناف) بال اگے تھے اسے قتل کر دیا گیا اور جس کے بال نہیں اگے تھے اسے قتل نہیں کیا گیا، میں ان میں سے تھا جن کے بال ابھی نہیں اگے تھے، لہٰذا مجھے چھوڑ دیا گیا۔‘‘ [ أبو داؤد، الحدود، باب فی الغلام یصیب الحد : ۴۴۰۴، و قال الألبانی صحیح ] جنگ میں شرکت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو چودہ سال کی عمر میں احد میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ خندق میں جائزہ لیا گیا تو پندرہ سال کے تھے، آپ نے اجازت دے دی۔ نافع نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو یہ حدیث پہنچائی تو انھوں نے کہا : ’’بچے اور بڑے کا یہی فرق ہے۔‘‘ [ بخاری، الشہادات، باب بلوغ الصبیان....: ۲۶۶۴ ] مگر ظاہر ہے کہ یہ فرق بچے اور اس بڑے کا ہے جسے جنگ میں شرکت کی اجازت ہے۔ محض بلوغت کی علامت احتلام ہے، اگر اس کا علم نہ ہو سکے تو زیر ناف بال اگنا ہے۔ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًا: یعنی یتیموں کا امتحان اور ان کی تربیت کرتے رہو، جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پہلے تھوڑا سا مال دے کر ان کو کسی کام پر لگا کر دیکھو کہ آیا وہ مال کو بڑھاتے ہیں یا نہیں، پھر جب وہ بالغ ہو جائیں اور ان میں رشد ہو تو بلا توقف مال ان کے حوالے کر دو۔ ’’رُشْدًا ‘‘ سے مراد عقلی اور دینی صلاحیت ہے، پس بالغ ہونے کے علاوہ مال کی سپرد داری کے لیے رشد بھی شرط ہے، اگر کسی شخص میں رشد نہیں ہے تو خواہ وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہو جائے متولی یا وصی کو چاہیے کہ وہ مال اس کے حوالے نہ کرے۔ ( قرطبی، ابن کثیر ) 3۔ ”فَلْيَسْتَعْفِفْ“ ”عَفَّ يَعِفُّ (ض)“ کا معنی بچنا ہے، ”فَلْيَسْتَعْفِفْ“ کا باب استفعال میں حروف کی زیادتی کی وجہ سے ترجمہ ’’بہت بچے‘‘ کیا گیا ہے۔ وَ مَنْ كَانَ فَقِيْرًا: جانا پہچانا طریقہ یہی ہے کہ اس کے اموال کی نگرانی کی اجرت جو معروف ہے، لے لے۔ دوسرا یہ کہ زیادہ سے زیادہ اتنا لے لے جس سے اس کی ضرورت پوری ہو سکے۔ فَاَشْهِدُوْا عَلَيْهِمْ: یتیم کے متولی یا وصی کو حکم ہے کہ گواہوں کے رو برو مال واپس کرے، تاکہ کل کو اس پر کوئی الزام نہ آئے۔ ”وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِيْبًا“ کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگوں کو تو مطمئن کر لو گے، مگر اصل حساب تو اللہ تعالیٰ نے لینا ہے، اس کا خاص خیال رکھو۔