سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ
فیصل
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَ الثَّقَلٰنِ: ’’ الثَّقَلٰنِ‘‘ ’’ثَقَلٌ‘‘کی جمع ہے، بھاری اور وزنی چیز۔ مراد زمین پر آباد جاندار مخلوق میں سے دو بھاری اور کثیر التعداد جماعتیں جن و انس ہیں۔ مخلوقات میں سے شرعی احکام کی تکلیف ان دونوں ہی کو دی گئی ہے، اس لیے انھی کو مخاطب فرمایا۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ’’ سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَ الثَّقَلٰنِ ‘‘ کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر نقل کی ہے : ’’ وَعِيْدٌ مِّنَ اللّٰهِ لِلْعِبَادِ وَلَيْسَ بِاللّٰهِ شُغُلٌ وَ هُوَ فَارِغٌ‘‘ یعنی ’’یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لیے وعید ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کو دوسرے کسی کام سے روکنے والی کوئی مشغولیت نہیں اور وہ فارغ ہے۔‘‘ امام بخاری نے فرمایا : ’’سَنَفْرُغُ لَكُمْ سَنُحَاسِبُكُمْ لاَ يَشْغَلُهُ شَيْءٌ عَنْ شَيْءٍ وَهُوَ مَعْرُوْفٌ فِيْ كَلاَمِ الْعَرَبِ يُقَالُ لَأَتَفَرَّغَنَّ لَكَ وَمَا بِهِ شُغْلٌ يَقُوْلُ لَآخُذَنَّكَ عَلٰي غِرَّتِكَ‘‘ [بخاري، التفسیر، سورۃ الرحمٰن، قبل الحدیث:۴۸۷۸ ]یعنی ’’سَنَفْرُغُ لَكُمْ‘‘ (ہم جلد ہی تمھارے لیے فارغ ہوں گے) کا مطلب یہ ہے کہ ہم جلد ہی تمھارا حساب لیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز دوسری چیز سے رکاوٹ نہیں بنتی اور یہ کلامِ عرب میں معروف ہے۔ کہا جاتا ہے، میں تمھارے لیے فارغ ہوں گا، حالانکہ اسے کوئی مشغولیت نہیں ہوتی۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں تمھاری غفلت میں تمھیں پکڑوں گا۔ ‘‘ ’’ سَنَفْرُغُ لَكُمْ ‘‘ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اے جنو اور انسانو! ہم نے تمھارے لیے ایک نظام الاوقات طے کر دیا ہے، دنیا میں تمھارے پاس عمل کی مہلت ہے، یہاں ہم ہر لمحے تمھاری ضرورتیں پوری کر رہے ہیں، جو مانگتے ہو دے رہے ہیں، بہت جلد ہم اس مرحلے سے فارغ ہوں گے، پھر قیامت قائم ہو گی اور تمھارے محاسبے کا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔