لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کا شہروں میں (خوشحالی کے ساتھ) چلنا پھرنا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے۔
لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا: اوپر کی آیات میں مومنوں کے گناہ بخشنے اور ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا، حالانکہ وہ فقر و فاقہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کے بالمقابل کفار نہایت عیش و نعمت میں تھے، انھیں دیکھ کر بعض اوقات مسلمان غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے اور مختلف خیالات کی دنیا میں چلے جاتے، لہٰذا ان آیات میں مسلمانوں کا ذہن صاف کرنے کے لیے کفار کا انجام بیان فرمایا اور مسلمانوں کو تسلی دی ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نیکی کے معاملہ میں مومن کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتا، اسے اس نیکی کا بدلہ دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں بھی اور کافر جو نیکیاں اللہ کے لیے کرتا ہے اس کا بدلہ اسے دنیا ہی میں پورا دے دیا جاتا ہے، پھر جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہو گی کہ اس کا بدلہ اسے دیا جائے۔‘‘ [ مسلم، صفات المنافقین، باب جزاء المؤمن....: ۲۸۰۸ ] مقصد یہ ہے کہ شہروں میں کفار کے تجارتی کاروبار، ان کی خوش حالی اور مال و دولت کی فراوانی کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلوں میں کسی قسم کا حزن و غم نہیں آنا چاہیے، نہ ان کو نا امیدی کا شکار ہونا چاہیے، نہ منافقین کا سا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے، جو سختی اور خوف کے وقت پکار اٹھتے ہیں : ﴿ مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اِلَّا غُرُوْرًا﴾ [ الأحزاب : ۱۲ ] ’’اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا دینے کے لیے وعدہ کیا تھا۔‘‘ کفار کی دنیوی خوشحالی سے کفر کے حق ہونے پر استدلال نہیں کرنا چاہیے، یہ چند روزہ زندگی کا قلیل سا سامان اور عارضی بہار ہے، مرنے کے بعد ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔ اس کے مخاطب بظاہر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر مراد امت ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت میں مومنین کی جزا کا ذکر فرمایا، تاکہ مزید تشفی حاصل ہو اور یہ چونکہ کفار کے مقابلے میں بیان کی جا رہی ہے، اس لیے ’’ لٰكِنِ ‘‘ کا لفظ بطور استدراک ذکر فرمایا۔ (المنار)