وَلَقَدْ جَاءَهُم مِّنَ الْأَنبَاءِ مَا فِيهِ مُزْدَجَرٌ
اور ان کے سامنے (گزشتہ اقوام کے) وہ واقعات آچکے ہیں کہ ان میں (سرکشی روکنے کے لیے) کافی تنبیہ
وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنَ الْاَنْۢبَآءِ ....: ’’نَبَأٌ‘‘ کسی اہم خبر کو کہتے ہیں، ’’ الْاَنْۢبَآءِ ‘‘ اس کی جمع ہے۔ ’’ مُزْدَجَرٌ ‘‘ ’’زَجَرَ يَزْجُرُ زَجْرًا‘‘ (ن) (روکنا، منع کرنا، ڈانٹنا) سے بات افتعال کا مصدر میمی ہے، جس کا معنی ’’باز آنا‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے : ’’زَجَرْتُهُ فَازْدَجَرَ‘‘ ’’میں نے اسے منع کیا تو وہ باز آ گیا۔‘‘ یہ اصل میں ’’مُزْتَجَرٌ‘‘ (بروزن مُفْتَعَلٌ) تھا، ’’زاء‘‘ کی وجہ سے باب افتعال کی ’’تاء‘‘ کو دال سے بدل دیا تو ’’ مُزْدَجَرٌ ‘‘ ہو گیا۔ تنوین اس میں تعظیم کے لیے ہے۔ یعنی قرآن کی صورت میں ان کے پاس رسولوں کو جھٹلانے والی اقوام کی خبروں میں سے ایسی اہم خبریں یقیناً پہنچی ہیں جن میں آدمی کے لیے ہوائے نفس کی پیروی اور رسولوں کی تکذیب سے باز آنے کا مکمل سامان موجود ہے۔ اگلی آیات میں ان میں سے چند خبروں کا ذکر فرمایا ہے۔