وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَكُلُّ أَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ
اور انہوں نے جھٹلایا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور ہر معاملہ کی ایک حد ہے جہاں پہنچ کر اسے ٹھہرنا ہے
1۔ وَ كَذَّبُوْا وَ اتَّبَعُوْا اَهْوَآءَهُمْ:’’ اَهْوَآءَ‘‘ ’’هَوًي‘‘ کی جمع ہے، خواہشات۔ یعنی کفار کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے معجزات کو جھٹلانے کا باعث کوئی معقول بات نہ تھی، بلکہ صرف اپنی خواہشات کی پیروی تھی۔ لفظ ’’هَوًي‘‘ (خواہش) اسمِ جنس ہے جو واحد پر صادق آتا ہے اور جمع پر بھی، مگر یہاں ’’ اَهْوَآءَ ‘‘ (جمع) اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ کفار کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے کا باعث ان کی ایک خواہش نہ تھی بلکہ بہت سی خواہشیں تھیں جو انھیں آپ کے تابع فرمان ہونے سے روکتی تھیں۔ مثلاً سرداری کی خواہش، حسد، آباء کی پیروی کی خواہش، اپنے داتاؤں پر جمے رہنے کی خواہش، شتر بے مہار رہنے اور کسی کے تابع فرمان نہ ہونے کی خواہش وغیرہ۔ 2۔ وَ كُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ: ’’قَرَّ يَقِرُّ‘‘ (ض) قرار پکڑنا۔ ’’اِسْتَقَرَّ‘‘ میں مبالغہ ہے، یعنی جس طرح ہر چلنے والا آخر کار کہیں نہ کہیں جا کر ٹھہر جاتا ہے اور ہر کام کا، خواہ وہ اچھا ہو یا برا، کوئی نہ کوئی انجام ہوتا ہے، اسی طرح یہ مت سمجھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں حق کی طرف بلاتے رہیں گے اور تم انھیں جھٹلاتے رہو گے اور آپ کا حق پر ہونا اور تمھارا باطل پر ہونا کبھی ثابت نہیں ہو گا، بلکہ ایک وقت آئے گا جب ہر چیز کی حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی اور ثابت ہو جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانا اور جادوگر قرار دینا غلط تھا۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام کی آیت (۶۷) : ﴿لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْتَقَرٌّ وَّ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ﴾ کی تفسیر۔