أَفَرَأَيْتَ الَّذِي تَوَلَّىٰ
بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جو دین حق سے پھرا ہوا ہے؟
1۔ اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى: اس سورت کا مضمون رسالت کا اثبات، شرک اور بت پرستی کی تردید اور مشرکینِ مکہ کی مذمت ہے۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے پاک ہونے کے گمان اور دعویٰ سے منع فرمایا۔ قریش مکہ اپنے بارے میں کئی طرح کے گمان اور دعوے رکھتے تھے، جنھوں نے انھیں دھوکے میں مبتلا کر رکھا تھا۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر ان کے وہ گمان ذکر فرمائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنی برتری کا گمان تھا، اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو مٹی سے، پھر ماں کے شکم سے پیدا کرنے کا ذکر فرما کر تقویٰ کو معیارِ فضیلت قرار دیا۔ ایک کام ان کا یہ تھا کہ انھوں نے عین کعبہ کے اندر ابراہیم، اسمٰعیل علیھما السلام اور دوسرے بزرگوں کی صورتیں رکھ کر ان کی عبادت کر کے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہمارے یہ وکیل اور سفارشی بڑے زبردست ہیں کہ وہ اپنے نام لیواؤں کو، خواہ وہ کچھ بھی کرتے رہیں، اپنے دامن میں پناہ دیں گے۔ (دیکھیے یونس : ۱۸) ایک گمان ان کا یہ تھا کہ کفر کے باوجود انھیں جس طرح دنیا میں نعمتیں ملی ہوئی ہیں اسی طرح آخرت میں بھی ملیں گی۔ (دیکھیے مریم : ۷۷) اسی طرح وہ دوسروں کو یہ کہہ کر اسلام قبول کرنے سے روکتے تھے کہ تم ہماری راہ پر چلتے رہو، تمھارے گناہ ہم اٹھا لیں گے۔ (دیکھیے عنکبوت : ۱۲) ان سارے دعوؤں اور گمانوں کا نتیجہ یہ تھا کہ آخرت کے عذاب سے بے خوف ہونے کی وجہ سے ان میں دنیا کی شدید ہوس، بخل اور کمینگی آ چکی تھی۔ وہ کچھ خرچ کرتے بھی تھے تو نام و نمود کی خاطر، وہ بھی بس اتنا کہ نام ہو جائے، اس سے آگے ان کے ہاتھ کھلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے اور اتنا خرچ کر کے بھی وہ اپنی سخاوت اور دریا دلی کی لاف زنی کرتے کہ میں نے یہ کر دیا اور وہ کر دیا، جیسا کہ سورۂ بلد میں ہے : ﴿يَقُوْلُ اَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا ﴾ [ البلد : ۶ ] ’’کہتا ہے میں نے ڈھیروں مال برباد کر ڈالا۔‘‘ اپنے آباو اجداد، پیشواؤں، وکیلوں اور سفارشیوں کے بل بوتے پر یہ کہہ کر گناہ کیے جاتے ہیں کہ ہمارے گناہ وہ اٹھا لیں گے، جیسے نصرانیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے تمام گناہوں کے کفارہ میں مسیح علیہ السلام سولی پر چڑھ گئے ہیں، ہم ان کے نام لیوا ہیں، ہمارے سارے گناہ انھوں نے اپنے ذمے لے کر بخشوا لیے ہیں اور جیسا کہ آج کل مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ نے شہادت پا کر اپنے نام لیواؤں کے سارے گناہ بخشوا لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ایسے تمام گمانوں اور دعوؤں کی تردید فرمائی ہے۔ 2۔ وَ اَعْطٰى قَلِيْلًا وَّ اَكْدٰى: ’’ اَكْدٰى ‘‘ ’’كُدْيَةٌ‘‘ سے ہے جس کا معنی چٹان ہے۔ کوئی شخص کنواں وغیرہ کھودنے لگے اور آگے چٹان یا پتھر آ جانے کی وجہ سے کھودنے سے رک جائے تو کہا جاتا ہے : ’’أَكْدَي الرَّجُلُ۔‘‘ یہاں ’’ الَّذِيْ ‘‘ سے کوئی خاص شخص مراد نہیں، بلکہ مقصود مشرک آدمی کی نفسیات اور طرزِ عمل کا تذکرہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے، اگر کبھی دیتے بھی ہیں تو نام کے لیے، وہ بھی تھوڑا سا، پھر ان کے سامنے کنجوسی کی چٹان آ جاتی ہے اور وہ رک جاتے ہیں، خصوصاً جب انھیں اس سے شہرت یا دنیوی مفاد حاصل ہوتا دکھائی نہ دیتا ہو۔ فرمایا کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے حق قبول کرنے سے منہ موڑ لیا، کچھ تھوڑا سا مال خرچ کیا اور رک گیا۔ شاہ عبدالقادر نے فرمایا : ’’یعنی تھوڑا سا ایمان لانے لگا، پھر رک گیا۔‘‘ (موضح) اس معنی میں مراد وہ مشرک ہیں جنھوں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کی تعریف کی، مگر اس کے بعد ایمان لانے سے رک گئے۔