لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
(مسلمانو) تمہیں اپنے مال و دولت اور جانوں کے معاملے میں (اور) آزمایا جائے گا، اور تم اہل کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اور اگر تم نے صبر اور تقوی سے کام لیا تو یقینا یہی کام بڑی ہمت کے ہیں ( جو تمہیں اختیار کرنے ہیں)
یہ خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمانوں سے ہے کہ آئندہ بھی جان و مال میں تمہاری آزمائش ہو گی اور تمھیں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنا ہوں گی، جیسے اموال کا تلف ہو جانا اور بیمار پڑ جانا وغیرہ۔ اہل کتاب اور مشرکین کی زبانوں سے تمھیں انتہائی دل آزار اور جگر خراش طعن و تشنیع، بے ہودہ گفتگو اور جھوٹے الزامات سننا پڑیں گے، جیسا کہ منافقین نے ہر طرح ستایا۔ سورۂ منافقون اور سورۂ توبہ میں تفصیل دیکھ لیں، نیز کعب بن اشرف یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہجو کی اور اپنے قصائد میں مسلمان خواتین کا نام لے کر عشقیہ اشعار کہے۔ مگر ان کا علاج یہ ہے کہ تم صبر، یعنی ثابت قدمی اور استقلال سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اپنے دلوں میں رکھو۔ اگر صبر اور تقویٰ سے ان آزمائشوں کا مقابلہ کرو گے تو یہ نہایت ہمت، حوصلے اور اولو العزمی کا کام ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ صبر اور تقویٰ سے کام لیتے رہے، حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی نہ ان کی طرح بد زبانی سے کام لیا اور نہ عملاً اس طرح زیادتی کی جس طرح انھوں نے کی تھی۔