سورة البقرة - آیت 40

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے بنی اسرائیل ! میری نعمت یاد کرو، وہ نعمت جس سے میں تمہیں سرفراز کیا تھا اور دیکھو اپنا عہد پورا کرو (جو ہدایت قبول کرنے اور اس پر کاربند ہونے کا عہد ہے) میں بھی اپنا عہد پورا کروں گا (جو ہدایت پر کاربند ہونے والوں کے لیے کامرانی و سعادت کا عہد ہے) اور دیکھو میرے سوا کوئی نہیں پس دوسروں سے نہیں صرف مجھی سے ڈرو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ اس سے پہلے ”يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ“ کے ساتھ تمام لوگوں کو دعوت تھی، اب بنی اسرائیل کو خصوصی خطاب ہے، کیونکہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ان کا زیادہ حق ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں ۔ یہ خطاب کبھی انعامات یاد دلا کر ہے جو ان پر کیے گئے، کبھی ان کی بد اعمالیوں پر ڈانٹ کے ساتھ ہے اور کبھی ان سزاؤں کے ذکر کے ساتھ ہے جو ان کی نافرمانیوں پر انھیں دی گئیں ۔ یہاں سے لے کر آیت ایک سو سینتالیس تک ان پر دس انعامات، ان کی دس بد اعمالیوں اور انھیں دی جانے والی دس سزاؤں کا ذکر ہے۔ ( التسہیل ) 2۔اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام یا لقب ہے، جس کے معنی ہیں اللہ کا بندہ۔ اس لیے ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل میں پہلے پیغمبر یوسف علیہ السلام اور آخری پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ (قرطبی) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بنی اسرائیل کو یہ چیزیں یاد دلائی گئیں ، حالانکہ یہ سب کچھ پہلے بنی اسرائیل پر گزرا تھا، کیونکہ ان کے بزرگوں پر انعام ان پر بھی انعام تھا اور وہ اب بھی اپنے بزرگوں کی بد عادتوں میں ان کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔ گزشتہ بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ آپ کے زمانے میں موجود بنی اسرائیل کے اعمال بد کا بھی ذکر فرمایا، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کے باوجود کفر، کتاب اللہ کی تحریف، جبریل علیہ السلام سے عداوت، جادو کرنا، ایک دوسرے کو قتل کرنا وغیرہ۔ بنی اسرائیل کے احوال اتنی تفصیل سے ذکر فرمانے سے یہ بھی مقصود ہے کہ امت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان بد اعمالیوں سے بچے اور ان کے نتائج سے ڈرتی رہے۔ نِعْمَتِی: اگرچہ یہ لفظ واحد ہے، مگر جنس مراد ہے، جس میں تمام نعمتیں شامل ہیں ۔ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِيْۤ....: یہاں اس عہد کی تفصیل بیان نہیں فرمائی، سورۂ مائدہ (۱۲) میں اس عہد کی تفصیل موجود ہے۔ اس کے مطابق ان کا اللہ تعالیٰ سے عہد یہ تھا کہ تم نماز قائم کرو گے اور زکوٰۃ دو گے اور میرے رسولوں پر (جن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں ) ایمان لاؤ گے،ان کی مدد کرو گے اور اللہ کو اچھا قرض دو گے اور اللہ کا ان سے عہد یہ تھا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں گا اور تم سے تمھارے گناہ دور کروں گا اور تمھیں جنتوں میں داخل کروں گا۔ وَ اِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ: ”اِيَّايَ“ کامعنی’’خاص مجھ سے‘‘ہے۔”فَارْهَبُوْنِ“اصل میں ”فَارْهَبُوْنِيْ“ تھا۔ ’’یاء‘‘ حذف ہو گئی، اس کا معنی بھی مجھ سے ڈرو ہے۔ خاص مجھ سے کے بعد دوبارہ ’’ مجھ سے ڈرو ‘‘کی وجہ سے ’’خاص مجھی سے ڈرو۔‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے، ورنہ خاص کے بعد ’’ مجھ‘‘ کا لفظ کافی تھی، مجھی کی ضرورت نہ تھی۔