سورة الطور - آیت 1

َالطُّورِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

قسم ہے طور کی (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الطُّوْرِ: اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی پانچ عظیم الشان مخلوقات کی قسم کھائی ہے، اس بات کا یقین دلانے کے لیے کہ اس کا عذاب قیامت کے دن اس کے دشمنوں پر واقع ہو کر رہنے والا ہے، اسے کوئی ہٹانے والا نہیں۔ یہ پانچوں مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عظیم اور لامحدود قوت و قدرت کی شاہد ہیں اور اس بات کی دلیل ہیں کہ ان عظیم مخلوقات کے خالق کے لیے قیامت برپا کرنا اور اپنے منکروں کو عذاب دینا معمولی بات ہے۔ 2۔ ’’ الطُّوْرِ ‘‘ کا معنی وہ پہاڑ جس پر پودے اگتے ہوں۔ ایک خاص پہاڑ کا نام بھی ’’طور‘‘ ہے جس کے دامن میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور اگر اس پر ’’الف لام‘‘ جنس کا ہو تو تمام پہاڑ مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کی طرف توجہ دلانے کے لیے متعدد مقامات پر پہاڑوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ان کا زمین میں گڑا ہوا ہونا، آسمان کی طرف بلند ہونا، سمندر سے ہزاروں فٹ بلند ہونے کے باوجود ان پر چشموں، پودوں اور درختوں کا اور اتنی بلندی پر گلیشیروں کی صورت میں پانی کے بے حساب ذخیروں کا موجود ہونا، ان کے اندر چھپے ہوئے معدنیات کے بے شمار خزانے، اتنے بلند اور ٹھوس ہونے کے باوجود ان میں راستوں کا موجود ہونا، غرض پہاڑوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت کی بے شمار نشانیاں ہیں۔ مزید دیکھیے سورئہ رعد(۳)، حجر(۱۹)، نحل(81،15)، لقمان( ۱۰)، فاطر( ۲۷)، مرسلات (۲۷)، نبا(۷)، نازعات(۳۲) اور غاشیہ(۱۹)۔