إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ
بلاشبہ اس میں بہت بڑی بصیرت ہے جو اپنے پہلو میں سوچنے والا دل رکھتا ہو، جس کے سر میں (توجہ سے) سننے والا کان ہو۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ ....:’’ قَلْبٌ ‘‘ نکرہ ہے، اس لیے ترجمہ ’’کوئی دل‘‘ کیا گیا ہے۔ نصیحت حاصل کرنے کے دو ہی ذریعے ہیں، یا تو آدمی خود غور و فکر کرے اور عقل سے کام لے یا کسی خیر خواہ کی بات توجہ سے سن کر اس پر عمل کر لے۔ یعنی اس سورت میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے نصیحت وہی حاصل کر سکتا ہے جو کوئی دل رکھتا ہو جس کے ساتھ اس پر غور و فکر کرے۔ ’’کوئی دل‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دل کے ساتھ معمولی سا غور و فکر بھی کرے، یا دل کی حاضری کے ساتھ ان آیات کو سن لے۔ مگر کفار کا حال یہ ہے : ﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا﴾ [ الأعراف : ۱۷۹ ] ’’ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں۔‘‘ اور قیامت کے دن وہ خود تسلیم کریں گے : ﴿ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ﴾ [ الملک: ۱۰ ] ’’اگر ہم سنتے ہوتے یا سمجھتے ہوتے تو ہم بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں سے نہ ہوتے ۔ ‘‘