وَلَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ ۚ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا ۗ يُرِيدُ اللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور (اے پیغمبر) جو لوگ کفر میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھا رہے ہیں، وہ تمہیں صدمے میں نہ ڈالیں، یقین رکھو وہ اللہ کا ذرا بھی نقصان نہیں کرسکتے، اللہ یہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کوئی حصہ نہ رکھے، اور ان کے لیے زبردست عذاب (تیار) ہے۔
کافر اور منافق مختلف طریقوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے رہتے، جس سے آپ طبعی طور پر رنجیدہ خاطر بھی ہو جاتے، خصوصاً غزوۂ احد کے واقعہ کو منافقین نے بہت ہوا دی اور مسلمانوں کو اللہ کی نصرت سے مایوس کرنے کی کوشش کی اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی کہ اس قسم کی مخالفتوں سے کفار اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، بلکہ اس قسم کا رویہ اختیار کر کے خود ہی آخرت کے حصے سے محروم ہو رہے ہیں۔