قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَٰكِن كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ
اس کا ساتھی کہے گا، اے میرے رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا لیکن یہ خود ہی پرلے درجے کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا۔
قَالَ قَرِيْنُهٗ رَبَّنَا مَا اَطْغَيْتُهٗ ....: کافر جب یہ حکم سنے گا تو کہے گا، اے میرے رب! میرا کوئی گناہ نہیں، مجھے تو میرے قرین (ساتھی) نے گمراہ کیا۔ اس کے جواب میں اس کا قرین (ساتھی) کہے گا، اے ہمارے رب! میں نے اسے سرکش نہیں بنایا، بلکہ یہ خود ہی بہت دور کی گمراہی میں مبتلا تھا، میں نے اس پر کوئی زبردستی نہیں کی۔اگر یہ خود انتہائی گمراہ نہ ہوتا تو میرے کہنے سے کبھی سرکشی اختیار نہ کرتا۔ ’’قرین‘‘ سے مراد وہ شیطان بھی ہے جو انسان کے ساتھ رہ کر اسے گمراہ کرتا رہتا ہے اور انسانوں میں سے برے ساتھی بھی جو اسے برائی کا درس دیتے اور اس پر ابھارتے رہتے ہیں۔ قیامت کے دن جب مجرم یہ بہانہ بنائے گا کہ ان لوگوں نے مجھے گمراہ کیا تو وہ اس سے صاف براء ت کا اظہار کر دیں گے۔ ان گمراہ کرنے والے شیاطین الانس و الجن کے اپنے گمراہ کردہ لوگوں سے بری ہونے کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۶۷)، اعراف، (۳۸، ۳۹)، ابراہیم (۲۱)، سبا (۳۱ تا ۳۳) اور سورۂ ص (۵۵ تا ۶۱)۔