بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا
اصل بات یہ نہیں کہ جو تم کہہ رے ہو) بلکہ تم نے یہ سمجھ لیا کہ اب پیغمبر اور مسلمان اپنے اہل وعیال میں کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے اور یہ گمان تمہارے دلوں کو بھی بھلالگا اور تم نے طرح طرح کی بدگمانیاں کیں اور تم برباد ہونے والے لوگ ہو (٢)۔
1۔ بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ....: یعنی تمھارے پیچھے رہنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ تم نے سمجھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان، جو احرام باندھ کر جا رہے ہیں، پورا اسلحہ بھی ساتھ لے کر نہیں جا رہے اور اس دشمن کے پاس جا رہے ہیں جس نے سیکڑوں میل دور سے آکر مدینہ میں ان کے کئی آدمی قتل کر دیے اور سخت نقصان پہنچایا، یہ وہیں کاٹ ڈالے جائیں گے، کوئی بچ کر واپس نہیں آئے گا۔ 2۔ وَ زُيِّنَ ذٰلِكَ فِيْ قُلُوْبِكُمْ: یعنی تمھیں اپنے پیچھے رہنے پر کوئی ندامت بھی نہ تھی، بلکہ دل میں خوش تھے کہ ہم نے بہت اچھا کیا کہ ساتھ نہیں گئے۔ ’’یہ بات تمھارے دلوںمیں مزین کر دی گئی‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے فعل مجہول ’’ زُيِّنَ ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا۔ مزین کس نے کیا، اس کی صراحت نہیں فرمائی، کیونکہ وہ متعدد چیزیں ہیں، مثلاً دنیا کی مرغوبات، آدمی کا نفس، شیطان اور برے ساتھی وغیرہ۔ 3۔ وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا: ’’ بُوْرًا ‘‘ ’’بَائِرٌ‘‘ کی جمع ہے جو ’’بَارَ يَبُوْرُ بَوْرًا‘‘ (ن) سے اسم فاعل ہے، ہلاک ہونے والے۔ یعنی اصل بات یہ ہے کہ تم شروع سے اپنی نامردی اور بزدلی کی وجہ سے تھے ہی ہلاک ہونے والے، کیونکہ بہادر مومن تو ایک دفعہ مرتا ہے جبکہ بزدل منافق ہر گھڑی مرتا ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ﴾ [المنافقون:۴ ] ’’(ایسے بزدل ہیں کہ) ہر اونچی آواز کو اپنے آپ پر آنے والی (آفت) ہی سمجھتے ہیں۔‘‘